Monday 26 September 2016

Why Sexuality is awful in human history?

0 comments


کم کرادیشئن (Kim Kardashian) امریکی ٹی وی کے رئیلٹی شو کی سلیبرٹی ہیں. انکی عمر پینتیس سال ہے. ان کی دو اولادیں بھی ہیں. وہ میڈیا میں بطور سٹائلسٹ متعارف ہوئیں لیکن انکی وجہ شہرت انکا ایک لیکڈ پورن ویڈیو کلپ بنا جس میں وہ اپنے بوائے فرینڈ رے جے کے ساتھ مصروف عمل تھیں. جس کے بعد انہیں بھرپور عوامی توجہ اور پزیرائی ملی..

کچھ دن پہلے کم کرادیشئن ایک ہوٹل سے نکل کر اپنی کار تک آرہی تھیں تو انکا سیکسی اور ایکسپوزنگ لباس دیکھ کر ان کے فین مشتعل ہو گئے اور آوازے کستے ہوئے انہیں برا بھلا کہنے لگے. میں نے کم کی وہ ویڈیو دیکھی جس میں کم باوقار طریقے سے اپنا باکمال فگر سنبھالتے ہوئے برہنہ لباس میں اپنی کار میں سوار ہو رہی تھی. میں نے دیکھا اس پہ آوازے کسنے والوں میں دو تین انتہائی موٹی خواتین شامل تھیں.. جنہیں اپنی بدصورتی کا غم تھا یا کم کی قدر دانی کا دکھ... جو وہ کم کو نمودار ہوتے دیکھ کر ہی چلانے لگیں.ورنہ امریکہ جیسی سوسائٹی میں ایسے لباس کا پہننا قطعاً معیوب نہیں ہے. مجھے لوگوں کے رویے پر حیرت اور افسوس ہوا.

جس پیج نے یہ خبر شئیر کی ہوئی تھی وہاں لاتعداد کمنٹس دیکھ کر مجھے تجسس ہوا کہ میں دیکھوں کہ باقی امریکیوں کی اس معاملے پر کیا رائے ہے. یقیناً وہ ان جاہل اور حسد کی ماری خواتین جیسے خیالات نہیں رکھتے ہوں گے. لیکن مجھے یہ دیکھ کر بہت مایوسی ہوئی کہ وہاں بھی لوگ کم کرادیشئن کے "حیا باختہ" لباس پر اسے لعن طعن کرنے میں مصروف تھے. کچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ چونکہ کم اب بوڑھی ہو رہی ہے اس لیے وہ اپنی جگہ بنائے رکھنے کے لیے ایسی حرکتیں کرنے پر مجبور ہے. کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ کم کے بچے اب بڑے ہو رہے ہیں اس لیے اسے کچھ شرم کرنی چاہیے. اسے سوچنا چاہیے کہ جب بچے جوان ہوکر ماں کی ایسی تصاویر اور ویڈیوز دیکھیں گے تو کتنا برا محسوس کریں گے. مزے کی بات یہ ہے کہ اس قسم کے خیالات کا اظہار کرنے والوں میں زیادہ تعداد خواتین کی تھی.

ایک معقول تبصرہ بھی پڑھنے کو ملا جس میں لکھا گیا تھا کہ لوگوں کا ردعمل حیران کن ہے. یہ وہی کم کرادیشئن ہے جسکو ایک پورن ویڈیو کی وجہ سے لوگوں نے قابلِ توجہ جانا اور آج اسکے لباس پر انہی لوگوں کا مشتعل ہونا سمجھ سے باہر ہے...

اس دن سے میں سوچ رہی ہوں کہ کیا وجہ ہے کہ اتنا ترقی یافتہ معاشرہ ابھی تک اس قسم کی سوچ کا حامل ہے جہاں عورت کا لباس اور اسکی عمر اسکی شخصیت کی قیمت لگاتے ہیں. جہاں لوگ حرامزادے پیدا کرتے ہیں لیکن توقع رکھتے ہیں کہ دوسرے لوگ حلال زادے پیدا کریں گے
کیا Sexuality کی مخالفت کرنا تہذیب پسندی ہے یا دقیانوسیت؟

سیکس انسانی تمدن کا اتنا اہم پہلو ہو کر اتنا متنازعہ اور بے وقعت کیوں ہے کہ انسان یہ عمل کر گزرے بغیر رہ بھی نہیں پاتا لیکن مسلسل اس پہ نادم ہونے کو یا دوسروں کو ندامت میں مبتلا کرنے کو انسانیت یا تہزیب پسندی کا اہم رکن خیال کرتا ہے؟

مغرب و مشرق میں خواتین کی طرف سے طلاق کے حصول کا بڑھتا ہوا رحجان

0 comments
لاہور ہائی کورٹ میں روزانہ رجسٹرڈ ہونے والے کیسز میں اوسط چالیس سے پچاس کیس طلاق کے ہوتے ہیں. ان کیسز کے اعداد و شمار کے مطابق دلچسپ بات جو سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ شادیاں ٹوٹنے کا رحجان ارینج میرجز میں زیادہ ہے.
ادھر مغرب میں صورتحال اس سے بھی بھیانک ہے. عام آدمی تو ایک طرف،تمام آسائشوں سے لیس امرا کا طبقہ جنہیں بظاہر کسی قسم کے مسائل کا سامنا نہیں وہ اس اخلاقی گراوٹ میں دھنسے ہوئے معلوم ہوتے ہیں. ایک طرف انجلینا جولی طلاق پر مصر ہو گئی ہے اور دوسری طرف بل گیٹس کی بیوی نے طلاق کا مطالبہ کر دیا ہے. مشرق و مغرب کی اس مایوس کن صورت حال پر احباب دانش و حکمت اخلاقی اقدار سے رو گردانی اور انفرادیت پسندی کو اس بحران کا ذمہ دار ٹھہرایا رہے ہیں.
یہ بات بطور حتمی سچ قبول شدہ ہے کہ خاندانی نظام کا آغاز عورت نے کیا تھا. مرد کو جنت سے نکالنے کی جتنی علامتی کہانیاں ہمیں لٹریچر مذہبی کتب اور فوک قصیدوں میں ملتی ہیں سب ہی میں عورت پر یہ الزام دھرا جاتا ہے کہ اس نے اناج کے دانے کے ذریعے ابن آدم کو بہکایا اور جنت سے نکال کر زمین پر لے آئی.
بتانے والے بتاتے ہیں کہ یہ علامتی کہانی انسانی تاریخ کے اس اہم موڑ کی طرف اشارہ کرتی ہے جب مرد جنگل کی ازاد فضاؤں میں شکار کے بہانے مختلف ایڈوینچرز سے لطف اندوز ہوا کرتا تھا تو پیچھے کھولی میں بچوں کی پیدائش کو رکھوالی کے لیے بیٹھی عمل تولید کے فطری جبر کی ماری عورت نے تجربات کرتے ہوئے زمین میں بیج ڈال کر فصل اگانے کا راز دریافت کر لیا. جو بعد میں اہم ترین انسانی دور یعنی زرعی دور کا پیش خیمہ بنا. اب مرد کے پاس خوراک کی تلاش کے لیے جنگلات کی کھلی فضا کی سیر کرنے کا بہانہ نا رہا اور وہ زمین میں بیج ڈال کر مہینوں اسکی رکھوالی کرنے اور ایک ہی جگہ محدود ماحول میں قید ہونے پر مجبور ہوا. کھیتوں سے چڑیا کوے اڑاتے ہوئے وہ عورت کو کوسنے لگا کہ جس کے اناج کے ایک دانے کے بل بوتے پر آدم سے جنت(جنگل) چھین لی. ابن آدم آج تک جنگل کی کھلی فضاؤں،بغیر کسی قیمت کے میسر پھولوں اور پھلوں اور جنگلات میں بہنے والی آبشاروں کو جنت کے بہانے یاد کرکے آہیں بھرتا ہے. دعا ہے کہ یہ آرزوئے ناکام نا ہو. اور مستقبل میں اس جنت کا حصول دوبارہ ممکن ہو جائے.
اب آتے ہیں خاندانی نظام کی طرف جس کے آغاز سے پہلے ہر قبیلے کے مردو زن مشترکہ جنسی تعلقات رکھتے تھے. اس کی باقیات آپ کو اب بھی مختلف خاندانوں(سکھوں) تہذیبوں(کزن میرجز) اور قبیلوں میں با آسانی دستیاب ہو گی. ڈسکوری چینل کی ایک ڈاکومنٹری کے ذریعے پتا چلا کے انڈیا کے ایک دور دراز علاقے میں ایک ایسا گاؤں آباد ہے جہاں گھر کی بہو گھر کے تمام مردوں کی بیوی ہوتی ہے. اگر ہم غور سے اپنے پرانے قصے اور لوک گیتوں کا مطالعہ کریں تو ایسیا مواد میسر آئے گا جس میں بھابھی کے دیور یا جیٹھ اور جیجا جی کے اپنی سالیوں کے ساتھ کسی نا کسی طرح کے جنسی سمبندھن کی نشاندہی ہوتی ہے. یہ سب اس دور کی باقیات ہیں. ایسے مشترکہ خاندانی نظام میں عورت کے لیے اپنی اولاد کی پرورش کی ذمہ داری کسی ایک مرد پر ڈالنا کھٹن تھا. لہذا اس نے یک زوجیت کے لیے جدوجہد کی اور بھرپور کامیاب رہی. یک زوجیت کے بعد انسانی تہذیب نے برق رفتاری سے ترقی یا ارتقاء کیا ہے.
ہم انسان جو اخلاقیات اور اقدار کا راگ آلاپتے ہیں دراصل ہم شعوری یا لاشعوری طور پر کائنات کے بنیادی اصول کو سمجھنے سے انکاری ہوتے ہیں. حرکت، تغیر، ارتقاء، تبدیلی یہ کائنات(مادہ) کی بنیادی خصوصیات ہیں. انسانی تاریخ کا ماخذ بھی الوہہ نہیں بلکہ یہی زمینی مادی ردو بدل ہیں. لہذا انسانی تاریخ کو آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا. آگے بڑھنے کے لیے پہلی جگہ چھوڑنی پڑتی ہے. پوزیشن تبدیل کرنی پڑتی ہے. یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہر شے جو جنم لیتی ہے اپنے عروج کو پہنچ کر، اپنی خدمات پیش کر کے منطقی طور پر زوال پذیر ہو جاتی ہے.
سائنس و ٹیکنالوجی کے پیدا کردہ معجزات جن سے ہم ناکوں ناک گھر چکے ہیں. جو نا صرف ہماری ضروریات بن چکے ہیں بلکہ ہماری ترقی اور ہماری سماجی اقدار کی نوک پلک سنوارنے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں. ایسی صورت میں یہ توقع رکھنا کہ ہم جدیدیت کے مزے تو چکھیں گے لیکن یہ جدیدیت ہماری سماجی بنیادوں کو نہیں چھیڑے گی کافی احمقانہ خیال ہے. نئے اوزار و آلات کے ساتھ ہم پرانی رویات و اقدار حنوط کر سکیں گے یہ بات عقل پر پوری نہیں اتری. آخر ایسا کونسا فارمولا ہے جس کے تحت انسانی عقل، انسانی شعور، اسکی روایات، اسکی اقدار کو intact رکھا جا سکتا ہے جبکہ ارد گرد کی ہر شے تغیر پذیر ہو؟
غلام داری اور ذرعی ادوار میں عورت نے خود کو پیداواری سرگرمیوں سے دور رکھا اور بالواسطہ یا بلاواسطہ معاشی طور مرد پر منحصر رہی. اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اپنی اور اپنے بچوں کی روزی کے انتظام کے لیے اس نے مرد سے ہزار ہا تلخ سمجھوتے کیے لیکن اب صورتحال مختلف ہو رہی ہے. میرے نزدیک معاشی مجبوری انسان کی سب سے بڑی مجبوری ہے. اور عورت اب معاشی طور پر مجبور نہیں رہی. شاید وہ اب بھی سمجھوتے کرنا چاہتی ہے لیکن اب ان سمجھوتوں کی نوعیت اور طرح کی ہے. اس قسم کے تضادات موجودہ خاندانی بحران کی نمایاں وجوہات قرار دیے جا سکتے ہیں.
مزید برآں ہم دیکھتے ہیں کہ خواتین کی ابھرتی ہوئی صلاحیتوں، عملی زندگی میں انکے نمودار ہوتے ترقی یافتہ اور ذہین رویے، پیداواری ذرائع تک آسان رسائی، عمل تولید میں میسر سہولیات سمیت دیگر عوامل نے خاندانی نظام کی سابقہ اہمیت میں دراڑ ڈال دی ہے. نسل انسانی کو بڑھانے کے نت نئے طریقے دریافت ہو رہے ہیں. سائنس کہیں ماں کے بغیر بچے پیدا کرنے کے دعوے دار ہے اور کہیں باپ کی اہمیت سے انکاری ہے. ایسے میں خاندانی نظام کی تباہی کو انسانی تاریخ کے المیے کے طور پر پیش کرنا شاید مناسب اپروچ نہیں. مختصر ترین الفاظ میں یہ کہنا مقصود ہے کہ نسل انسانی کی نشوونما اب خاندانی نظام کی محتاج نہیں رہی. نا ہی اسکا اخلاقیات سے کوئی تعلق ہے. بدلتی روایات کی اخلاقیات بھی بدل جاتی ہیں. غیر متغیر اخلاقی نظام کے خلاف کیا یہ دلیل کافی نہیں کہ انسانی اخلاقیات کے یکساں، غیر متغیر اور خامیوں سے مبرا پیمانے آج تک کوئی طے نہیں کر سکا؟ 

Friday 16 September 2016

گوشت خوری بائیو سائنس اور سوشل سائنس کے تناظر میں

0 comments


بات کا آغاز کرتے ہیں دیگر جانوروں اور انسان کی ارتقائی تاریخ سے. فوڈ چین کے ٹاپ پر گوشت خور جانور آتے ہیں. جسکا مطلب ہے توانائی کا بلند ترین مقام. تقریباً ہر سبزی خور جانور کا کوئی نا کوئی دوسرا جانور شکاری ہوتا ہے . جانوروں کی ایسی انواع بھی ملتی ہیں جو سبزی خور جانوروں سے خوراک حاصل کرتی ہیں لیکن بمشکل ہی کوئی ایسا جاندار ملے گا جو گوشت خور جانوروں کا شکار کرتا ہے. اپنے اد دعوے کی مثال ڈھونڈنے کے لیے ہمیں جنگل میں جانے کی ضرورت نہیں. اردگرد نگاہ ڈالیے. کتے، بلی اور کوے کسی کا شکار بننے کی بجائے زیادہ تر طبعی موت ہی مرتے ہیں.

دنیا کا سب سے بڑا جانور گوشت خور ہے. جی ہاں میں وہیل کی بات کر رہی ہوں. دنیا کا سب سے ذہین جاندار گوشت خور ہے. جی ہاں میں انسان کی بات کر رہی ہوں. جنگل کا بادشاہ گوشت خور ہے. تیز ترین رفتار کے لیے ہم چیتے اور جیگوار کی مثالیں دیتے ہیں. گوشت خوری کا جانداروں کی کارکردگی، قابلیت اور ذہانت اور پیچیدگی میں اہم کردار ہے. کیسے؟ آئیے اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں.

پودے زیادہ تر کاربوہائیڈریٹس اور فائیبرز کے بنے ہوتے ہیں. جن میں ریشے زیادہ اور توانائی کم ہوتی ہے. زیادہ توانائی کے حصول کے لیے ایک تو ان کو کھانا زیادہ مقدار میں پڑتا ہے دوسرا اتنی بڑی مقدار کو سٹور کرنے کے لیے جسم میں نظام انہضام کا بڑا حجم بھی درکار ہوتا ہے. اسی وجہ سے پودے کھانے والے جانوروں کے دو سے تین معدے ہوتے ہیں. جیسا کہ جگالی کرنے والے جانور. پہلے تو بے چارے جانور بے انت کھاتے ہیں. پھر ایک جگہ بیٹھ کر گھنٹوں جگالی کرنے میں لگے رہتے ہیں تاکہ کھایا ہوا ہضم کر سکیں. یوں انکی زندگی کا بیشتر حصہ کھانے اور ہضم کرنے میں ہی گزر جاتا ہے. دوسری جانب گوشت کی تھوڑی مقدار میں زیادہ توانائی دستیاب ہوتی ہے. جس کو ہضم کرنے کے لیے چھوٹے معدے سے بھی کام چلایا جا سکتا ہے. یہی وجہ ہے کہ گوشت خور جانور زیادہ تر سمارٹ مگر چست نظر آتے ہیں. اس کو مزید واضح طریقے سے سمجھنے کے لیے فرض کرتے ہیں کہ اگر ایک بیس کلو وزنی بھیڑ نے ایک ہزار پودے کھائے جس میں سے اگر پانچ سو پودوں کی توانائی بھیڑ نے اپنی سرگرمیوں میں ضائع کر دی تو بھی ہمیں پانچ سو پودوں کی توانائی ایک بھیڑ کی شکل میں یک مشت میسر ہو گی. وارم بلڈڈ جانوروں کو ویسے ہی توانائی کی بڑی مقدار درکار ہے. اور اگر انکی زندگی کا مقصد صرف کھانا اور ہضم کرنا نہیں ہے تو یقیناً انہیں گوشت خوری پر غور کرنا ہی پڑے گا. یاد رہے یہ ہوائی باتیں نہیں ہیں. سائنسی طور پر ثابت شدہ حقائق ہیں.

گوشت خور جانوروں کا دماغ بڑا ہوتا ہے اور وہ نسبتاً زیادہ بلکہ کافی زیادہ ذہین ہوتے ہیں. کتے اور گدھے کی ذہانت کافرق واضح ہے. شیر اور بیل کی عقل میں بھی تفریق کی جا سکتی ہے. جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے خوراک کا جانداروں کی جسمانی ساخت پر بھی اثر ہے. گوشت خوری نے جانداروں کے جسمانی حجم کم کیے لیکن کارکردگی کو بہتر بنایا. یہ منطق بالکل ویسے ہی ہے جیسے جب کمپیوٹر ایجاد ہوا تو کمرے بھر جتنا حجم رکھتا تھا. بجلی کے زیادہ یونٹ صرف کرتا تھا لیکن کارکردگی صرف اتنی کہ دو جمع دو چار ہی کر دے تو غنیمت. لیکن ٹیکنالوجی کی زبان میں اب جس کا سائز جتنا کم ہے وہ اتنا ہی سمارٹ اور کم توانائی کا مصرف ہے.

یہی نہیں گوشت خوری نے جانداروں کے تولیدی عمل پر بھی واضح اثر ڈالا ہے. گوشت خور جانداروں کا تولیدی دورانیہ اگرچہ زیادہ ہے لیکن نتیجتاً پیدا ہونے والی اولاد سخت جان ہوتی ہے اور اپنے ماحول میں ایڈجسٹمنٹ کی زیادہ قابلیت رکھتی ہے. میں نے مچھلیوں پر ایک تحقیق پڑھی جس میں بیان کیا گیا کہ پودے کھانے والی مچھلیاں زیادہ مقدار میں اور چھوٹے سائز کے انڈے دیتی ہیں لیکن ان سے نکلنے والے بچوں کا survival گوشت خور مچھلیوں کے بچوں سے کم ہے جو کم مقدار میں بڑے انڈے دیتی ہیں اور جنکا incubation period بھی زیادہ ہوتا ہے.

ہمارے ملحد یا حساس دل ساتھیوں کی عید قربان کے موقع پر آہ و زاری اس طویل تمہید سمیت اس کالم کا محرک بنی. جو ہر طریقے سے نئی نویلی منطقوں اور دلیلوں سے اسلام کی رسمِ قربانی کی مخالفت کر کے اسے غلط ثابت کرنے کے لیے جہاد جیسی کوششیں کر رہے ہیں. مندرجہ بالا شیطان کی آنت جتنے طویل بیان کی روشنی میں مجھے یہ کہنا مقصود ہے کہ گوشت خوری کوئی ناگہانی حادثہ، واقعہ، تاویل یا الہام نہیں ہے یہ انسانی ارتقائی تاریخ کی ایک کامیاب strategy ہے. اگر ہمارے آباؤ اجداد نے گوشت خوری نا کی ہوتی تو شاید آج ہم ذہانت و ارتقاء کی اس منزل پر نا کھڑے ہوتے. لہذا گوشت خوری سے نفرت بوجہ مذہب حماقت ہے. نوجوان لڑکے لڑکیوں کے لیے خصوصاً دو دلچسپ باتیں شئیر کرنا چاہوں گی. ایک انڈین مسلم دوست کا دعوا ہے کہ مسلمانوں کا وزن زیادہ ہوتا ہے. اور ضروری نہیں کہ یہ وزن جسم پر گوشت کی تہیں چڑھنے کی وجہ سے ہو. اس صاحب کے مطابق اس کی وجہ ہڈیوں کی زیادہ کثافت ہے جو کہ گوشت خوری کی بدولت حاصل ہوتی ہے. مزید یہ کہ گوشت خور لوگ تولیدی حوالوں سے زیادہ جاندار اور صحت مند ہوتے ہیں.

عید قربان کے تناظر میں گوشت خوری کی مخالفت میں دو بڑے دلائل دیکھنے میں آئے ہیں

یہ جانوروں پہ ظلم ہے
یہ لوگوں کو تشدد اور خون ریزی پر اکساتا ہے

صاحب! اگر یہ جانوروں پر ظلم ہے تو مرغی، مچھلی، جھینگے اور خنزیر بھی جانور ہیں. وہاں یہ ظلم کیوں نظر نہیں آتا.. جانوروں کے پتے، جگر، خون، چمڑی اور تیل مختلف اشیاء کی تیاری میں استعمال ہوتے ہیں پھر انکی بھی مخالفت کیجئے. عرض ہے کہ دنیا کا مہنگا ترین دودھ چوہیا کا دودھ ہے کیونکہ ایک لیٹر دودھ کے حصول کے لیے قریباً چار ہزار مادہ چوہوں کو دوھنا پڑتا ہے. یہ دودھ مختلف ادویات کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے. کیا یہ ظلم کے زمرے میں نہیں آتا؟

یہاں تک بات ہے تشدد کی تو یہ بھی کسی پراپیگنڈا سے کم نہیں. سب سے پہلے تو پاکستان سمیت دیگر مسلم ممالک کے پیشہ ور قصابوں اور انکی اولادوں کا ڈیٹا نکالیں اور تحقیق کریں کہ ان گھرانوں کے کتنے فیصد افراد قتل و غارت گری میں ملوث رہے ہیں. مزید برآں جب ہم اپنے بچوں کو میڈیکل کالجوں میں ڈالتے ہیں وہ وہاں جانوروں سمیت انسانوں کی چیڑ پھاڑ کر کے ڈاکٹری سیکھتے ہیں. فارغ التحصیل ہو کر وہ رحمدل بنتے ہیں یا متشدد؟

شدت پسندی کا تعلق جانور ذبح کرنے سے نہیں ہے. یہ ایک مائنڈ سیٹ ہے جس کے اپنے المیے ہیں. یہ الگ موضوع ہے. سردست اتنا کہنے پر اکتفا کروں گی کہ حقوق العباد کو ترجیح دینے والے مسلمانوں میں شدت پسندی کا عنصر کم ہوتا ہے. عید قربان ایک طرح سے حقوق العباد کی ہی سرگرمی ہے. یہ تفریح ہے. ذہنی آسودگی کا ایک ذریعہ ہے. ذہنی آسودگی انسانی جبلت کو تشدد سے دور رکھنے میں مدد گار ہے. ہزار ہا خاندانوں کا روزگار اس تہوار سے وابستہ ہے. سوشل سائنس کا کوئی سکالر اسے غیر صحت مند سرگرمی قرار نہیں دے سکتا. لہذا لوگوں کو یہ کرنے دیجئے.

آخر میں میں جس نرالی مخلوق بارے جرآت گفتار کرنے جا رہی ہوں وہ ہیں ہماری نازک اندام سلم اسمارٹ لڑکیاں. میرے مشاہدے کے مطابق یہ صنف گوشت خوری سے نا صرف خصوصی بیر رکھتی ہے بلکہ اس پہ نازاں بھی نظر آتی ہیں. اور بطور فیشن "سبزی و پزا خور" بننے پر فخریہ اتراتی ہیں. جبکہ میرے تائیں انہیں تمام قوت بخش غذاؤں سمیت گوشت خوری کی طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے کہ ان پر دنیا داری کی دیگر زمہ داریوں سمیت بچوں کی پیدائش و پرورش کا بار بھی عائد ہوتا ہے. یہ ایسا کٹھن بوجھ ہے کہ عورت کی ہڈیوں کا گودا چوس لیتا ہے. بہنو! گوشت، یخنی، پائے وغیرہ کھایا کریں . ورنہ دس سال بعد گلا کریں گی کہ یہ مرد تو بوڑھا نہیں ہوتا. عورت کیوں بوڑھی ہو جاتی ہے.

اعمال کا دارو مدار نیتوں پر اور صحت کا دارو مدار غذا پر ہوتا ہے.

Sunday 21 August 2016

ہجوم

0 comments

ملحقہ گلیوں کی نسبت یہ گلی زیادہ بارونق تھی۔ ایک تو کشادہ تھی اوپر سے بھانت بھانت کے لوگوں کی آماجگاہ۔۔ گوشت کی دوکان بھی یہیں واقع تھی اور چائے کا ڈھابا نما ہوٹل بھی۔۔۔ اس گلی سے نکلتے ہی بائیں جانب مین روڈ پر لڑکوں کا ایک سرکاری سکول تھا۔۔ سکول سے قریب ترین ہونے کی وجہ سے گیارہ بجتےہی اس گلی میں رنگ برنگے ٹھیلوں کا تانتا بندھ جاتا کیونکہ سکول کے سامنے فٹ پاتھ پر ٹھیلے لگانے کی جگہ نا تھی نا ہی اجازت اور سکول سے قریب ترین جگہ یہی گلی بنتی تھی۔ ہاف بریک یا چھٹی کی گھنٹی کیا بجتی گویا صور پھونک دیا گیا ہو۔۔ چھوٹے بڑے بجے شور و غوغا مچاتے ان ٹھیلوں کے گرد گھیرا ڈال لیتے۔۔۔چاچو آلو چھولے دینا۔۔ انکل مصالحہ زیادہ ڈالنا۔۔ بھائی آپ نے چٹنی کم ڈالی ہے۔ ۔۔ انکل میں کب سے کھڑا ہوں پہلے مجھے بھٹہ دیں۔۔ انکل یہ لڑکا آپ کے تھیلے سے پیسے چرانے کی کوشش کرر ہا ہے۔ بھانت کی بولیاں کبھی کبوتر کی گٹر گوں لگتی کبھی مچھلی منڈی کا سا سماں باندھ دیتیں۔۔  اگرچہ سکول کے اندر ایک صاف ستھری کینٹین کا انتظام تھا لیکن جو مزہ ان چٹ پٹی، رنگ برنگی، نامعلوم مگر لزیز ذائقے سے لبریز اشیا خورد و نوش میں تھا وہ کینٹین کے پھیکے اور مصالحوں سے محروم سینڈوچز اور برگرز میں کہاں۔ بچوں کی رغبت کی وجہ یہ بھی تھی کہ کینٹین کی نسبت ٹھیلوں کی خوش ذائقہ اشیا کم نرخ پر دستیاب تھیں ۔ حتی کہ چھٹی کے بعد بھی گھنٹہ بھرکے لیے گلی نیلی قمیضوں اور خاکی پینٹوں میں مبلوس ہیولوں سے بھری رہتی جن کی کمروں پر جہازی سائز بیگ لٹکے ہوتے۔۔

سہہ پہر ہوتی تو گلی نمبر پانچ والے ڈاکٹر ظہور ‘‘الشمس چائے والا’’ پر آ دھمکتے۔ وہ آجکل گلی نمبر تین میں بسنے والے میاں اجمل کی سیاسی جدوجہد  کی داستانوں سے دل پشوری کرنے میں مشغول تھے جنہوں نے اس دفعہ کونسلر کا الیکشن جیتا تھا اور آئیندہ ایم پی اے کا الیکشن لڑنے کا عزم کیے بیٹھے تھے۔ حاجی مہر علی صاحب جو ‘الشمش چائے والا’ سے دو گزر پرے واقع گوشت کی دوکان سے روزانہ  گوشت خریدنے آتے تھے،  شمس کے ہاتھ کی بنی چائے پینا نا بھولتے۔۔۔ اس طرح انہیں اخبار کی ورق گردانی کا بھی بہانا مل جاتا تھا۔ ان کے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر طے شدہ مقاصد میں سیاست و معاشرت پر اپنے قیمتی خیالات کا اظہار کرنا بھی شامل ہوتا تاکہ عوام الناس ان کے دانشمندانہ تجربات و خیالات سے سیکھ سکیں۔ وہ وقفے وقفے اپنی داڑھی میں خلال کرتے ہوئے لفظ کھینچ کھینچ کر گفتگو کرتے تھے۔۔۔۔گفتگو میں غیر معمولی ٹھراؤ ہوتا۔۔ وہ بات کرتے کرتے اچانک چپ ہو کر سوچنے لگتے جس سے ان کی شخصیت میں ایک عجیب طرح کی سنجیدگی اور متانت جھلکنے لگتی جو کبھی کبھی وہاں موجود کسی اجنبی کومضحکہ خیز معلوم ہوتی ۔چونکہ حاضرین میں سے زیادہ تر کا تعلق اسی گلی سے ہوتا اس لیے سب اس کی بات توجہ سے سنتے  تھے۔ ایک تو وہ اس گلی کے قدیم رہائشی تھے، دوسرا مرکزی بازار میں ان کی ذاتی دو دکانیں کرائے پر چڑھی ہوئی تھیں، تیسرا وہ اپنی گفتگو میں عالمی صورتحال کا حوالہ دینا نہیں بھولتے تھے کیونکہ انکا ایک بیٹا شارجہ سدھارا ہوا تھا جس سے ٹیلی فونک رابطہ ما بین سرحدین سیاسی و عسکری حالات کی خبریں کشید کرنے میں انکا معاون تھا ۔اور شائد اس گلی کے وہ واحد مکین تھے جن کے گھر روزانہ گوشت پکتا تھا۔ کسی بھی آدمی کی ممتاز شخصیت کی شناخت اور اس سے ملحقہ دانش کو ماپنے کے لیے یہ پیمانے بہتیرے تھے۔

وہ جمعرات کا روز تھا ۔۔۔ بچوں کو چھٹی ہوئے کافی دیر ہو چکی تھی اور وہ گلی میں اودھم مچا کر اپنے اپنے گھروں کو ہو لیے تھے۔۔۔ گلی میں اب اکا دکا نیلی شرٹوں کے بیچ و بیچ چمکیلے و سفید کاغذ ادھر ادھر لڑھک رہے تھے۔ جب کوئی موٹر سائکل گلی سے گزرتی تو یہ کچرا کاغذ یوں دور بھاگتے جیسے ڈر گئے ہوں جبکہ راہ گیروں کی ٹانگوں سے لپٹنے کی یوں کوشش کرتے جیسے کہہ رہے ہوں ہمیں ساتھ لے چلو بابو جی۔۔۔۔  دوپہر کے ان لمحات میں ‘‘ الشمس ہوٹل’’ پر رش کم ہو جاتا تھا۔۔۔ہوٹل کا مالک بھاری بھرکم بھائی شمس کافی مستعدی کا مظاہرہ کر چکنے کے بعد اب سستا رہا تھا۔ ۔۔ پچھلے دو گھنٹوں تک اسکی تینوں میزیں گاہکوں سے پر رہیں۔ اسے گاہکوں کو متوجہ کرنے ۔۔۔۔۔۔ ضروت کے مطابق انہیں وہاں دیر تلک بٹھائے رکھنے یا جلدی چلتا کرنے کے گر آتے تھے۔۔۔ ۔ وہ کوئی واقعہ سنتا توا سے دلچسپ داستان میں ڈھال لیتا۔۔ ہر پندرہ بیس منٹس بعد وہ اپنے گاہکوں کی طرف موجودہ سیاسی و سماجی صورت حال پر فقرہ پھینکنا نہیں بھولتا تھا۔۔۔۔۔  یہ اسکی ایک ٹیکٹک تھی اس سے گاہک گرما گرم بحث میں الجھ جاتے ۔۔۔ اگر بحث لمبی چلتی تو سمجھو کہ چائے کا آرڈر دینا تو لازم ٹھرا اور یہی بھائی شمس کی منشا ہوتی۔ ڈاکٹر ظہور جب اسکے ہوٹل میں نمودار ہوا تو وہ فریزر میں سے دودھ رکھ رہا تھا اور ساتھ اپنے اس وقت تک کے اکلوتے گاہک سے محو گفتگو تھا۔۔ مٹیالے رنگ کے شلوار قمیض میں مبلوس یہ ادھیڑ عمر شخص ماٹھے قد کا سرکاری نمائیندہ تھا جو گلی میں کسی گھر کی ٹیلی فون کی شکایت دور کرنے آیا تھا اور شمش کی دوکان پر چائے پینے کو رک گیا تھا۔ چائے کا آرڈر دے کر جب اس نے اخبار اٹھایا تو پہلی خبر دیکھ کر ہی اس کے منہ سے گالی نکل گئی۔۔ بہن چ۔۔۔۔ یہ ساری قوم کو ہو کیا گیا ہے؟ جھوٹی افواہیں بھی اب فرنٹ پیج پر سرخیاں بن کر چھپنے لگیں؟ ۔۔۔۔ یہ معیار رہ گیا ہے صحافت کا؟ کیا ہوا بھائی صاحب؟؟ شمس نے اپنی قمیض سے ہاتھ پونچھتے ہوئے سرسری انداز سے پوچھا۔۔ وہی ہوا ہے جو اتنے دنوں سے ہو رہا ہے۔ وہ مسئلہ جسے تدبر اور تحمل سے سلجھانے کی ضرورت ہے اس پر سنسنی اور ہیجان پیدا کرنے کا آخر مقصد کیا ہے؟؟  اب ایسے اخبار بکا کریں گے؟ اس نے اخبار شمس کی طرف لہرا کر جلی حروف میں لگی سرخی کی طرف اشارہ کیا۔ شمس نے جب یہ سنا تو اسے حیرت ہوئی اور کچھ عجیب بھی لگا کیونکہ آج کے دن یہ پہلا شخص تھا جس نے اس خبر کی تردید کی تھی وہ بھی اس خبر کی تردید کی جس کی توثیق ٹی وی اور اخبار کر رہے تھے۔ کیا بات کرتے ہو باؤ جی؟ لگتا ہے آپ ٹی وی نہیں دیکھتے یا آپکی اپنی اولاد نہیں ہے۔ ۔۔۔۔۔ شمس نے کھولتی چائے کو چولہے سے اتار کر دھار بنا کر کپ میں ڈالتے ہوئے فلسفیانہ انداز میں کہا۔ یہ جو تصویریں گھوم رہی ہیں۔۔۔۔۔ یہ جو سرگنہ پکڑے جا رہے ہیں یہ جھوٹ  کیسے ہو سکتا ہے؟ اس نے اشارے سے اپنے ملازم کو میز صاف کرنے کا کہا اور چائے کے کپ کے ساتھ  کیک اور رس گلے ٹرے میں سجا کر اسکے سامنے رکھے۔
میں بالکل تردید نہیں کرتا۔ ۔۔۔یقینا ایسے واقعات ہوئے ہوں گے یا ہورہے ہیں لیکن ان کی نوعیت اور تعداد اتنی ہی ہے جتنی ان افواہوں، ٹی وی کی خبروں اوراخبار کی ان سرخیوں سے پہلے تھی۔۔۔۔ کیا اب تک تمھاری اس گلی میں کوئی واقعہ ہوا ہے؟ آدمی نے چائے نما جھاگ کا سپ لیتے ہوئے کہا جس نے کپ کا ایک تہائی حصہ ڈھانپ رکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی تک تو نہیں ہوا لیکن کبھی بھی ہو سکتا ہے۔ ویسے بھی لوگ ان افواہوں سے چوکنے ہو چکے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ ہر طرح کی احتیاط برتی جا رہی ہیں۔ شمس غیر متوقع جوابات سے سست پڑ گیا تھا لیکن یونہی اس نے ڈاکٹر ظہور کو آتے دیکھا اس کی آواز میں جان پڑ گئی۔ ۔۔۔۔۔۔ یہ آگئے اپنے ڈاکٹر صاحب ان کے تو دو چار واقف کار ہیں ٹی وی میں ۔یہ بتائیں گے کہ کیا جھوٹ ہے اور کیا سچ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کہہ کر وہ چائے بنانے کے لیے مڑا جبکہ دوسری جانب لامتناہی گفتگو کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔۔۔۔۔۔۔ شمس نے اپنے فہم کے مطابق اس گفتگو کو سمجھنے کی کوشش کی اور اس میں سے اپنے مطلب کے نتائج اخذ کرنے لگا، مثلاً موجودہ صورت حال کے ذمہ دار عوام خود ہیں کیونکہ وہ اپنی عسکری قوتوں کی ناقدری کرنے پر تلے ہوئے ہیں یا وہ بار بار کرپٹ سیاست دانوں کا انتخاب کرتے ہیں۔۔۔۔۔

اتنے میں گلی میں ایک ہلچل پیدا ہوئی۔ سب کلام منطقع کرکے اس جانب متوجہ ہو گئے۔ چند لمحوں بعد لوگوں کی جھگڑنے کی آوازیں آنے لگیں۔۔۔ کچھ دیر خاموشی اختیار کر کے سب نے صورتحال سمجھنے کی کوشش کی لیکن شور مسلسل بڑھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب اٹھ کر باہر بھاگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ لوگوں نے دو افراد کو گریبان سے دپوچ رکھا تھا. دونوں کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں. ایک نے کالی جینز کے ساتھ سفید ٹی شرٹ پہن رکھی تھی. وہ گندمی رنگت لیکن خوش شکل اور دراز قد نوجوان تھا جبکہ دوسرا متوسط قامت نوجوان انگوری رنگ کی شلوار قمیض زیب تن کیے ہوئے تھا۔۔۔  انکی چھدرری داڑھیاں اور پتلی مونچھیں ان کی نو عمری کی چغلی کھا رہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا ہوا؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شمس تیزی سے آگے بڑھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہونا کیا ہے؟ ایک آدمی نے غصے سے پینٹ والے کا گریبان جھجھوڑتے ہوئے کہا۔ ۔۔۔۔ کتنی دیر سے میں ان دونوں کو دیکھ رہا ہوں....... ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ گلی میں مشکوک حرکتیں کر رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ کبھی اس نکر سے اس نکر تک جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کبھی اس  نکر سے اس نکر تک جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کبھی کہیں رک کر فون ملانے لگتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کبھی وہاں رک کر آپس میں کھسر پھسر کرنے لگتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر ایک چھوٹے بچے کا پیچھا کرنے لگے ۔۔۔۔۔ ۔ مجھے شک ہوا تو میں نے آواز دے کر بلایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن یہ بھڑوے  پرے دوڑ نکلے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے  شور نا مچایا ہوتا تو یہ دونوں بھاگ نکلتے۔ بتاؤ اوئے کون ہو اور کر کیا رہے تھے؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ و و وہ۔۔ سفید ٹی شرٹ والا منمنایا۔ ہم تو سرجی! بس ایسے ہی گھوم رہے تھے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اوئے یہ تیرے باپ کا پارک ہے جہاں گھوم رہے تھے؟ جھوٹ بولتے ہو سالو! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نا اس گلی میں پہلے تم کو کبھی دیکھا ، نا کوئی جان پہنچان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہاں ٹہل رہے تھے؟۔۔۔۔۔ٹہل رہے تھے یا بچے اٹھانے کے چکر میں تھے؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ سر جی ہمارا یقین کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم بے ضرر لوگ ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غلط فہمی کیسی؟ جب میں نے پیچھے سے آواز دی تو رکے کیوں نہیں؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھاگ کیوں اٹھے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سر وہ وہ دراصل۔ وہ۔۔ بس۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ  ہم ڈر گئے تھے۔؟ ڈرنا تو تھا ہی تم نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے تمھارے مشن کی بھنک جو پڑ گٗی تھی۔ - - - - - - -  سیدھی طرح اعتراف کرلو کہ تم لوگ اغواہ کار ہو اور بچے اٹھانے آئے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں سر جی۔ قران پاک کی قسم ایسی کوئی بات نہیں؟۔ہمیں لگا آپ کو معلوم پڑ گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں ہاں اب تو یہی کہو گے تم، پکڑے جو گئے ہو- - - - - - - -

بچے؟؟؟؟؟؟؟ بچے اٹھانے والے؟؟؟ ؟ بچے اغواہ؟؟؟؟ حاضرین ایک دم چونک اٹھے۔ چند لمحات تک پوچھ گچھ جاری رہی لیکن کوئی بھی تسلی بخش جواب نا ملنے پر سب کا فشار خون بلند ہونے لگا اور  سب ان پر بل پڑے۔ لاتیں...... گھونسے... مکے..... تھپٹر... سب نے حسب توفیق اس قومی فریضے میں اپنا اپنا حصہ ڈالا...
جیسے جیسے ان کی ٹھکائی ہوتی رہی اتنی شدت سے ٹھکائی کرنے والے اس میں شامل ہوتے گئے۔ بات مزید بگڑی جب انگوری شلوار قمیض والے لڑکے کی جیب سے ایک چاقو اورپولی تھین کے چھوٹے سے بیگ میں لپٹا انگوری رنگ کا ہی ایک پھکی نما پاوڈر نکلا۔ یہ دیکھتے ہی سب کا غصہ مزید بگڑ گیا۔ ڈاکٹر ظہور نے فورا اپنے رپورٹر دوست کو فون کر کے تازہ خبر کا عندیہ بھیج دیا۔ ٹھیک پچیس منٹس بعد جب ٹی وی والوں کی وین پہنچی تو کیمرے دیکھ کر  دم توڑتے شور میں دوبارہ جان پڑ گئی۔ ہر شخص کی کوشش تھی کہ اس کا انٹر ویو لیا جائے اور اسے موقع ملے واردات بتانے کا۔ ٹی وی رپورٹر خاتون نہایت عجلت میں تھی۔ اسے کسی بھی اور چینل کی وین پہنچنے سے پہلے یہ ضبر بریک کرنا تھی۔ اس نے مجمع کو پرے ہٹایا اور مجرموں کی لائیو کوریج کرنے لگی۔ باقی لوگ بھی موبائل نکال کر دونوں کی تصویریں اور ویڈیو بنا رہے تھے۔ پینٹ شرٹ والا  بے ہوش ہو چکا تھا. اس کے سر سے خون بہہ رہا تھا۔ شرٹ کا سفید رنگ گرد اور خون  سے دو رنگا ہو رہا تھا۔ انگوری سوٹ والا البتہ ہوش میں تھا۔ اور بری طرح رو رہا تھا۔ وہ ابھی بھی کچھ کہنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن ایک تو اسکا دانت ٹوٹ گیا تھا اوپر سے گلا رندھ جانے سے اسکی آواز الفاظ کی شکل ڈھالنے سے قاصر تھی۔ بس یوں محسوس ہو رہا تھا کہ وہ بیٹھا بین کر رہا ہو۔ ویسے بھی کسی کو اس کے بیان صفائی میں دلچسپی نا تھی۔ چہرے کی چوٹوں سے خون رس رہا تھا جو اسکے خدوخال کو بھیانک منظر کے طور پر پیش کر رہا تھا۔رپورٹر جاتون نے آناً فاناً دو منٹس کا لائیو بیان نیوز سٹوڈیو میں ریکارڈ کرایا ، ڈاکٹر ظہور، شمس اور حاجی صاحب کے بیانانت ریکارڈ کیے اور یہ جا وہ جا۔........... اب سب لوگ پولیس کا انتظار کر رہے تھے۔ لوگ بار بار پولیس کا نمبر ملا رہے تھے۔ شمس اس سے کچھ دور کھڑا مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے ادھر ادھر ٹہل رہا تھا اور وقفے وقفے سے استہرائیہ نگاہوں سے سرکاری فون کے ملازم کو یوں دیکھ رہا تھا جیسے پہلوان کشتی جیت کر چت پڑے مخالف کو دیکھتا ہے.. سرکاری نمائندہ  اس سے بے نیاز گم سم کھڑا واقعے کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس نے زمین پر پڑے دونوں لڑکوں کا بغور جائزہ لیا۔ پینٹ شرٹ والا لڑکا اوندھا پڑا ہوا تھا۔ اسکی پشت کی جیب سے موبائل نیچے لڑھک رہا تھا ۔ اچانک موبائل کی رنگ بجی تو سب اسکی جانب متوجہ ہوئے۔ کسی نے تیزی سے لپک کر موبائل اچک لیا۔ اس کے ساتھ ہی جیب سے چھوٹا سا ایک تہہ شدہ کاغذ بھی باہر نکلا۔..... ٹیلی فون والے نے غیر ارادی طور پر وہ کاغذ اٹھایا۔ شاید یہ بنک کی رسید تھی یا سودا سلف کی خریداری کا بل تھا.. اس نے تہہ کھولی تو اس پرایک تحریر درج تھی. اس نے تحریر پر تیزی سے نگاہ ڈالی.... ہجوم کو متوجہ کیا اور بلند آواز سے پڑھنے لگا۔

میری جان کے قریب تر امجد!

میں جانتی ہوں کہ تم مجھ سے بہت پیار کرتے ہو۔ ایک ہفتے سے میری گمشدگی پر تمھاری پریشانی کا سبب بھی تمھاری یہ محبت ہی ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ ابا نے مجھ سے موبائل فون چھین کر مجھ پر ہر طرح کی پابندی لگا دی ہے کیونکہ انہیں ہماری محبت کے بارے میں علم ہو چکا ہے اور وہ شدید غصے میں ہیں۔ انہوں نے مجھے سکول سے بھی اٹھا لیا ہے. یہ سب اس پھرتی سے ہوا کہ میں تمھیں اطلاح بھی نا کر سکی۔ یہ تو بھلا ہو میری دوست انعم کا جس نے تمھیں میرا ایڈریس دیا اور آج ہم دور سے ہی سہی لیکن ایک دوسرے کا دیدار تو کر سکے..۔ لیکن ابھی ہمیں احتیاط کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس لیے مجھ سے اگلی ملاقات کی جلدی تمنا نا کرنا۔.. میں انعم کے ذریعے تم سے دوبارہ رابطہ کروں گی..... میرے امجد! تم نے جس طرح  مجھ تک پہنچنے کے لیے آج صعوبتیں اٹھائیں اور پوچھتے پچھاتے میرا مکان ڈھونڈ لیا اس نے مجھے بہت متاثر کیا ہے۔ مجھے اب تمھاری محبت پر کسی قسم کا شک نہیں رہا۔ گھر پہنچ کر انعم کے ذریعے اپنا حال دل پہنچانا۔-----اور ہاں! میری طرف سے اپنے دوست کا شکریہ ادا کر دینا.. خدا اسے خوش رکھے
میں تمھیں بہت یاد کروں گی

یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجئے
اک آگ کا دریا ہے اور  ڈوب کر جانا ہے

فقط تمھاری
ثمینہ امجد