Thursday 19 February 2015

نیلا پھول

2 comments



فوٹو سٹیٹ کی شاپ پر صبر آزما انتظار کے بعد ہماری باری آنے تک مجھے شدید پیاس لگ چکی تھی۔ اگست کے آخری ایام تھے، گرمی جاتے جاتے اپنا رنگ دکھا رہی تھی اور مجھے مرغی کے ڈربے جیسی اس شاپ میں کچھ زیادہ ہی حبس محسوس ہونے لگی تھی۔ میں نے نائلہ کو جو نوٹس ہاتھ میں لیے دکاندار کی نظرِکرم کی منتظر کھڑی تھی کہنی سے ٹہوکا دیکر کہا ۔ ''جلدی کرو یار، بہت پیاس لگ رہی ہے مجھے'' 
‘‘میں کیا کروں؟ تمھارے سامنے ہی ہے! وہ میرے نوٹس پکڑ ہی نہیں رہا'' نائلہ نے جھلا کر کہا۔
میں نے ٹھنڈی آہ بھری اور ادھر ادھر جھانکنے لگی۔ صبر کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ خدا خدا کرکے باری آئی، نوٹس فوٹو کاپی ہوئے اور ہم دونوں یونیورسٹی کی طرف چل پڑیں۔ کلاس روم میں گھستے ہی میری نگاہوں نے پانی ڈھونڈنا شروع کردیا۔ رخشی کے پاس پانی کی بوتل نظر آئی تو میں بوتل سے منہ لگا کر غٹاغٹ پانی پینے لگی ۔ ۔ 
'اگلی دفع تم جاؤ گی شاپ پر، یہ سن لو''
میں نے پانی پی کر رخشی کو مخاطب کیا جو نوٹ بک پر کچھ سکیچ کر رہی تھی ۔ ۔ پتہ نہیں اسے کیا تھا، وہ ہر وقت کچھ نہ کچھ ڈراء کرتی رہتی تھی۔
''اچھا بابا چلی جاؤں گی، ناراض کیوں ہوتی ہو؟'' 
اس نے میری طرف دیکھے بغیر ہنستے ہوئے جواب دیا۔ اس دوران میری نظر نائلہ پر پڑی جو دروازے میں رکی روزی سے کچھ بات کر رہی تھی۔ روزی نے اشارے سے مجھے اپنے پاس بلایا۔
''پانی پی کر آتی ہوں''
میں نے بوتل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا، مگر اس کو بضد دیکھ کر مجھے اُٹھنا پڑا۔ شاید کوئی خاص بات تھی۔
''یار تمھیں کتنی بار کہا ہے کہ اسے اووئیڈ کیا کرو!'' 
روزی نے رخشی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ملامت بھرے لہجے میں کہا۔
''ہم مسلمان ہیں اور ہماری کچھ پریورٹیز ہیں۔ وہ احمدی ہے اور احمدیوں کیساتھ دوستی کرنا گناہ ہے اور تم ہو کہ اسکی بوتل میں سے پانی پی رہی ہو۔ کل جب ہم کینٹین میں گئے تھے تو میرے کزن نے دیکھ لیا۔ شام کو اس کا فون آیا تھا، وہ کہہ رہا تھا کہ اس سے دوستی ختم کرو’’ 
نائلہ کہاں پیچھے رہنے والی تھی۔ اس نے بھی نفرت سے کہا کہ ہمیں صرف تمھاری وجہ سے اس سے بات کرنا پڑتی ہے ورنہ وہ مجھے بہت بری لگتی ہے۔ یہ کہتے ہوئے اس نے ماتھے پر تیوریاں چڑھا لیں۔
میں سوچ میں پڑ گئی۔ جب سے میری اور رخشی کی دوستی ہوئی تھی مجھے اکثر یہ لیکچر سننے پڑتے تھے۔ کلاس کا تقریبا ہر فرد مجھے اس سے گریز کرنے کی نصیحت کر چکا تھا۔ میرا دماغ تیزی سے تمام چیزوں کا جائزہ لینے لگا۔ میں نے رخسانہ پر ایک نگاہ ڈالی، وہ ابھی تک اپنے اطراف سے بے نیاز کچھ سکیچ کر رہی تھی لیکن اب اسکے قلم کے نیچے ٹشو تھا۔
''لیکن یار وہ تو اتنی اچھی ہے، میں نے تو اس میں کوئی برائی نہیں دیکھی''
میں نے کمزور سی آواز میں دلیل دینے کی کوشش کی۔
‘‘یار!! ان لوگوں کی یہی توچلاکی ہے۔۔ سب سازش کا حصہ ہے۔یہ کافر اچھا اخلاق دکھا کر لوگوں کے دلوں میں جگہ بناتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ ان کو اپنے مذہب پر قائل کر لیتے ہیں، سمجھو اس بات کو’’ روزی نے رازدارانہ انداز میں سرگوشی کی
میں نے نہایت سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اثبات میں سرہلایا اور میری نظر سامنے دروازے پر لگے سٹکر پر پڑی جس پر کسی مولانا کا قول درج تھا  
''اے مسلمان! جب جب تو احمدی کے ساتھ رہتا ہے، تب تب رسول عظیم
کی روح تڑپتی ہے''

میں اپنے آپ کو روزی کی بات سے اتفاق کرنے پر قائل کرنے لگی۔ میں نے رخشی کی طرف دیکھا تو وہ بھی میری طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔ قدرت نے اسے غزالی آنکھیں دے رکھیں تھیں، لڑکی ہونے کے باوجود میں اکثر مجبور ہو جاتی تھی اسکے سامنے انکی تعریف کروں۔ ان بڑی بڑی آنکھوں میں ایک عجیب سی ہلچل رہتی تھی۔ خاموش مگر شور مچاتی ہوئی، سوال کرتی ہوئی آنکھیں، ویران مگر مسکراتی ہوئی آنکھیں۔ میں نے کبھی اسے روتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ میں دھیرے دھیرے چلتے ہوئے دوبارہ اسکی ساتھ والی چیئر پر ڈھیر ہوگئی۔ مجھے یاد آیا کہ ایم۔ ایس۔ سی کے آغاز میں جب سب ایک دوسرے سے شناسائی حاصل کرنے میں مصروف تھے، متوقع دوستیاں تلاش ہو رہی تھیں تو اسی دور میں میری بھانجی چائے گرنے سے جھلس گئی اور میں دو دن کیلئے سرگودھا چلی گئی۔ ہاسپٹل میں مجھے رخشی کا فون آیا تھا اور ادھر اُدھر کی باتوں کے سوا اس نے کوئی بات نہ کی تھی۔
''رخشی! جب میں سرگودھا میں تھی تو تو نے مجھے فون کس لیے کیا تھا؟''
میں نے رخسانہ سے پوچھا
''سچ بتاؤں یا جھوٹ؟''
اس نے سر اٹھائے بغیر کہا
‘‘سچ سننا ہے مجھے’’  میں نے زور دیکر کہا
''یونیورسٹی کے کام تو بہانہ تھا۔ میں تو ویسے ہی تم سے بات کرنا چاہتی تھی''
رخسانہ نے جواب دیا
''کیوں؟؟'' 
میں نے حیرت سے سوال کیا، مگر وہ خاموش رہی۔ کچھ توقف کے بعد میں دوبارہ گویا ہوئی۔
''اوہ اچھا! سمجھ گئی! تو تم مجھ سے دوستی کرنا چاہتی تھی''
میں نے فخریہ انداز اپنایا۔
''ارے جاؤ! تم میں ایسا کیا ہے جوتم سے دوستی کی جائے؟'' 
اس نے میری چٹکی لیتے ہوئے شرارت سے کہا۔
''کمینی پھر بتاتی کیوں نہیں؟'' 
میں نے اپنا بازو سہلاتے ہوئے کہا۔
 اس بار اس نے سنجیدگی سے جواب دیا ''کیونکہ مجھے تم کلاس میں سب سے مختلف لگیں تھی ۔''
‘‘اور جب تم یہاں نہیں تھیں تو میں نے تمھیں مِس کیا تھا۔’’
اس دوران اس نے ٹشو پیپر پر اپنا آرٹ ورک مکمل کر لیا تھا۔ یہ نیلی بال پوائنٹ سے ٹشو پر سکیچ کیا ہوا یک رنگ مگر نفیس ادھ کھلا نیلا گلاب تھا۔ میں نے دل ہی دل میں اسے داد دی۔ وہ جسے خدا نے احمدی ہونے کے باوجود صلاحتیوں، نفاستوں اور مسکراہٹوں سے نواز رکھا ہے میں اس سے کیسے نفرت کروں؟ میں کون ہوں اس کے مقدر کا فیصلہ کرنے والی؟ میرے ذہن کی تمام الجھنیں معدوم ہونے لگیں۔
''یہ تمھارے لیے ہے''
رخشی نے ٹشو پیپر میں طرف بڑھایا۔ میں اسکا چہرہ تکنے لگی۔ میری نظریں سوالیہ تھیں، وہ خاموشی سے مسکراتی رہی۔
‘‘ تو یہ کہ میرا انتخاب درست ہے’’

اس کی چڑاتی ہوئی مسکراہٹ سے میں نے جواب اخذ کیا۔ میں نے اپنے وجود میں اس کیلئے نفرت تلاش کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہی۔
‘‘کسی غلط فہمی میں نہ پڑو ۔ تو اس لیے مختلف لگی کیونکہ پوری کلاس میں صرف تو عقل سے پیدل ہے’’ اس نے اپنا مخصوص نقاب درست کرتے ہوئے شرارت سے کہا۔
کمینی عورت! میں نے بھی اپنا فیورٹ سلینگ ورڈ استعمال کرتے ہوئے اسے جھوٹ موٹ کوسا اور پھر سے اسکی بوتل سے پانی پینے لگی۔۔

2 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔