Monday 30 November 2015

نیک دل آدمی

1 comments

نیک دل آدمی
.................
ویگن میں رش تھا مگر حلیمہ کو گھر جانے کی جلدی تھی اس لیے ویگن رکتے ہی وہ اسکی جانب لپکی..کنڈکٹر نے ایک آدمی کو اٹھا کے اس کے لیے جگہ بنائی. حلیمہ نے کپڑوں لتوں کے دو شاپر اندر پھینکے اور پھرتی سے سوار ہو گئی..
'لائیں بچی کو میری گود میں بٹھا دیں'..ساتھ بیٹھے ادھیڑ عمر آدمی نے بازو آگے بڑھایا." نہیں"  اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا.. لہجے میں ہلکی سے غراہٹ تھی..آدمی چونکا اور کھسیانا ہو کر پرے دیکھنے لگا..
لمحے کے ہزارویں حصے میں اٹھارہ سال پرانے خیالات بجلی بن کر اسکے دماغ میں کوندے.. ماضی کے پردے سے اسی قسم کی بازگشت سنائی دے رہی تھی..کوئی کہہ رہا تھا
' اماں بچی کو میں گود میں بٹھا لیتا ہوں..کوئی بات نہیں اپنی  بیٹی ہے'..اپنا عصا اور کپڑوں کی گٹھڑی سنبھالے ہانپتی ہوئی بڑھیا بڑے تشکر سے اس نیک دل آدمی کو دیکھتی جو بعد میں سارا راستہ حلیمہ کے بدن کو سہلاتا رہتا.اسے گود میں بٹھائے پہلو بدلتا.چپکے سے اس کے گالوں پہ,ہونٹوں پہ بوسے دیتا..سات سالہ حلیمہ گود میں کسی شے کی سختی محسوس کرنے لگتی جو اسے زرہ بھی اچھی نا لگتی تھی.وہ بہت بے چینی محسوس کرتی مگراس بے چینی کی وجہ سمجھنے سے قاصر رہتی.  حلیمہ کبھی اپنی نانی کو بھی کچھ نا بتا سکی کیونکہ بتانے کو کچھ تھا ہی نہیں..وہ ننھیال میں رہتی تھی اور نانی کے ساتھ اپنی ماں سے ملنے جاتی تھی....ایسا اکثر ہوتا.. کوئی نا کوئی با اخلاق آدمی اسکی نانی کی مدد کرنے کو تیار رہتا..وہ ضد کرتی کہ نہیں بیٹھنا تو نانی ڈانٹ دیتی . یوں وہ ہونقوں کی طرح سوکھے حلق اور گندے احساسات کے بوجھ تلے دبی,سہمی ,ڈری اپنے سٹاپ آنے کا انتظار کرنے لگتی....ساتھ بیٹھی نانی یا تو خراٹے لے رہی ہوتی یا اسی نیک دل آدمی کو اپنی پر اسرار بیماریوں کی علامات بیان کر رہی ہوتی.
نانی تو کچھ عرصے بعد مر گئی مگربچپن کے دور کی وہ بے چینی اب غلاظت اور شرمندگی کے احساسات میں بدلتی جا رہی تھی....اور تین بچوں کی ماں بننے کے باوجود یہ واقعات اب تک ڈراونے خوابوں کی طرح اسے یاد تھے.جب وہ یہ سوچتی کہ اسے کس مقصد کے لیے ..کس طریقے سے اور کس انداز سے استعمال کیا جاتا رہا تو اسے خود سے گھن آنے لگتی..بیٹھے بیٹھے اسکا خون کھولنے لگتا..مگر کہیں کچھ بدلا بھی تھا..
  میری ماں اور نانی نے تو مجھے نیک دل آدمیوں سے نہیں بچایا تھا مگر میری بچی کسی نیک دل آدمی کا لقمہ نہیں بنے گی.. حلیمہ نے اپنی بیٹی کو سینے کے ساتھ بھینچ کر لگا لیا

کرماں والی

0 comments

''اے بکھّاں۔۔اے بکھّاں۔۔۔۔اُٹھ۔۔اُٹھ جا ''
کوئی اسے کندھے سے پکر کر جھنجھوڑ رہا تھا۔اُس نے بڑی مشکل سے آنکھیں کھولیں۔اسکا گھر والا شریف دین اس کے سر پر کھڑا تھا۔
''بس اٹھنے لگی ہوں۔۔'' بکھاں نے سستی سے کروٹ لیتے ہوے کہا۔۔
''چھیتی کر ۔ ۔ مجھے چلم گرم کر کے دے''۔
وہ اپنی دھوتی سمبھالتے ہوے چارپائی پر جا بیٹھا۔۔گہری نیند سے جاگنے کے بعد بکھاں کے اعضاء سن ہو رہے تھے جسکی وجہ سے اس سے ہلا نہیں جا رہا تھا مگر اٹھنا ضروری تھا ورنہ شامت آجاتی۔وہ اٹھی اور چارپائی پر ٹانگیں لٹکا کر بیٹھ گئی۔پاس ہی اسکے دونوں بچے سو رہے تھے۔وہ انھیں جگانے کے لیے آوازیں دینے لگی۔
''سونے دے میرے پُتّروں کو''۔
شریف کی کھردری آواز گونجتے ہی وہ چپ ہو گئی اور کپڑے جھاڑتے ہوےسست رفتاری سے نلکے کی طرف چل دی۔ مشرق کی طرف سے پھوٹنے والی لالی اس کے گھر کی نیچی اور کچی دیوار پھلانگ کر اس کے وسیع صحن میں پھیل رہی تھی ۔ صحن میں لگے نیم کے قد آور پیڑ وں پر چڑیوں نے شور مچا رکھا تھا۔جب وہ منہ ہاتھ دھو رہی تھی تو آپس میں گتھم گتھا دو چڑیاں اسکے سامنے آ گریں۔
''لَےدسّ ۔ کِنج لڑ رہاں ۔ انہاں نےآپس میں بھلا مربّے ونڈنے ہیں؟ ۔۔جھلیاں نہ ہوں تو''۔۔
وہ ہنسی اور ہاتھ مار کے ان کو اڑانے لگی ۔
''بدبختے چھیتی ہل۔ ۔ہڈیوں میں پیپ ہے تیرے؟''۔
شریف کی غراتی ہوئی آواز نے اسکا پیچھا کیا تو اس کے بدن میں جیسے بجلی دوڑ گئی۔لکڑیوں اور اُپلوں سے چولہے میں آگ سلگھانے کے بعد اس نے شریف کےلیے بڑے سے چینی کے پیالے میں دہی نکالا ۔باقی دہی چاٹی میں ڈال کر مدھانی سے مکھن نکالنے لگی۔ شریف نے دہی کا پیالہ چڑھایا ،کچھ دیر حقہ گڑگڑایا اور بیل گاڑی جوتنے لگا۔ دونوں لڑکے اٹھے اور حسب معمول کچھ کھائے پیے بغیر باپ کے پیچھے بھاگ گئے۔
ظہر کی اذان سے کچھ دیر پہلےتک وہ مال ڈنگروں سمیت سب ضروری کام نبٹا چکی تھی ۔کمرے میں آنے کے بعد آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنا جائزہ لیتے ہوئےوہ بالوں میں کنگھی پھیرنے لگی۔اسکا رنگ گورا ،آنکھیں درمیانی اور ماتھا چوڑا تھا۔اس وقت اسکی عمر بمشکل اکیس برس تھی مگر اسکے بالوں میں چاندی جھلکنے لگی تھی۔ دیوارپہ ٹنگے دھندلے سے آئینے میں اس نے غور سے خود کو دیکھا۔آنکھوں کے کناروں پر ہلکی ہلکی سلوٹیں نمودار رہی تھیں۔بکھّاں نے جب اپنے دوپٹے کے پلو سے انکو صا ف کرنے کی کوشش کی تو وہ اور نمایاں ہو گیئں۔ اس نے اداسی سے ٹھنڈی آہ بھری اور بازار میں کھلنے والی کھڑکی کے پٹ کھول کر بیٹھ گئی۔ ۔اکیس برس کی عمر میں ہی وہ عورت لگنے لگی تھی۔ایسا ہونا تو بہت پہلے طے ہوگیا تھا جب محض پندرہ برس کی عمر میں اسکی شادی کر دی گئی تھی۔چھ بہنوں میں سے وہ سب سے بڑی تھی۔اپنے میاں جی کی لاڈلی تھی۔اسکے میاں جی امام مسجد تھے اور بڑے پرہیز گار تھے۔ وہ اکثرانگلی پکڑ کر اسے اپنے ساتھ باہر لے جاتے۔چیزیں دلاتے۔اسکا ماتھا چومتے۔لیکن لگاتار اوپر تلے لڑکیوں کی پیدائش کے بعد وہ بھی کچھ بدل سے گئے تھے۔اکثر باہر رہتے اور رات کو دیر سے گھر لوٹتے ۔جسکا نتیجہ یہ نکلا کی بی بی سارا دن اسے ڈانٹتیں۔اسکی چھوٹی بینوں کو بے وجہ مارتیں۔البتہ گھر کی بھاری بھر کم ذمہ داریاں سنبھالنے کی وجہ سے وہ مار سے بچی رہتی ۔انکے خاندان میں مرد سفید کلف زدہ بڑے کُلّے والی پگڑیاں باندھتے تھے جسکی وجہ سے خاندان ''کُلّے والا'' کہلاتا۔
عمرکے چودویں سال اچانک جب اس نے قد نکالا تو بی بی جان کوہول اٹھنے لگے۔لہذا دور کا اک بھتیجا ڈھونڈ کر اسکی شادی کر دی گئی۔ویسے بھی سفر کھٹن تھا۔چھ پہاڑ عبور کرنے تھے(اگر چہ چھٹا پہاڑ ابھی شیرخوار تھا) اس لیے اسکے والدین اپنے اس فعل میں حق بجانب تھے۔ یہ شادی بے جوڑ تھی،اسکا گھر والا پستہ قد کا بدمزاج اور ادھیڑ عمرآدمی تھا۔سُلفے کی لاٹ جیسی کم عمر بیوی پانے کے بعد وہ اندر ہی اندر خود کو کم تراور غیر محفوظ محسوس کرنے لگا۔جس کا نتیجہ شک،سختی اور درشتگی کی صورت میں نکلا۔وہ بے جا بکھّاں کو دبانے کی کوشش کرتا، بد زبانی کرتا اور ہاتھ اٹھاتا۔کچے ذہن کی بے بس لڑکی سب ہنس کے سہہ لیتی کیونکہ رخصتی کے وقت بی بی جان نے اسے کہا تھا " ہم تیرا جتنا اچھا کر سکتے تھے کر دیا۔دھیے! گزارا کرنا ہے.. کیوں کہ تیرے پیچھے آنے والا کوئی نہیں۔تیری بہنوں کے مستقبل کے لیے تیرا گھر وسّنا بہت ضروری ہے۔ تووسّ کے دکھائیں... ۔جو وی ہوے چپ کر کے سہہ لئیں... ، سی نہ کریں..." ۔وہ اس بات کا مطلب بخوبی سمجھتی تھی چنانچہ اسے قسمت سمجھ کر سمجھوتہ کر لیا۔شادی کے شروع کے چند مہینے وہ گاؤں میں ہی رہے مگر پھر شریف کے اور میاں جی کے اختلافات شروع ہو گئے۔میاں جی عزت دار آدمی تھے جبکہ شریف کی خصلت میں کمینہ پن تھا۔وہ فطرتاً جھگڑالو تھا۔گاؤں میں اکثر اسکا کسی نہ کسی کے ساتھ جھگڑا رہتا جسکا نتیجہ طور پر میاں جی کو بھگتنا پڑتا۔وہ پنچایتوں میں اس کے حصے کی معافیاں مانگتے جس کی وجہ سے انکی بہت سُبکی ہوتی۔بکھاں کو بھی اس بات کا بہت ملال تھا۔ کیوں کہ وہ اپنے میاں جی سے بہت پیار کرتی تھی ۔ان کو یوں خوار ہوتے دیکھ کر اسکا دل کڑھتا۔مگر وہ عملی طور پر بے بس تھی۔ایک دفعہ میاں جی نے شریف کو سمجھانے کی کوشش کی تو وہ ہتھے سے اکھڑ گیا اوراول فول بکنے لگا ۔یہی نہیں میاں جی کے جانے کے بعد اس نے سارا نزلہ بکھاں پر گرایا۔اس رات وٹّہ گرم کر کے وہ دیر تک بدن پہ ثبت نیل سیکتی رہی ۔
پھر قدرت کی مہربانی نے انگڑائی لی اور50ء کے عشرہ میں حکومت کی طرف سے کسانوں کو تھل میں زرعی زمینیں الاٹ کرنے سلسلہ شروع ہوا تو شریف کو بھی قسمت آزمائی شوق چڑھ آیا اور اس نے لیّہ میں تھوڑی سے زمین اپنے نام الاٹ کرالی ۔ بکھاں کو ماں باپ سے بچھڑنے کا غم تو تھا مگر وہ جانے کے لیے خوشی خوشی تیار ہوگئی کیونکہ ان کے گاؤں چھوڑنے سے میاں جی کا عذاب ختم ہو جاتا۔اور نہیں تو کم از کم وہ انکی نظروں سے اوجھل ہو جاتی۔نہ وہ اسے پستا ہوا دیکھتے اور نہ انہیں ایذا ملتی۔۔کتنی سادہ سی بات تھی۔چنانچہ وہ اپنے دو بچوں کے ساتھ لیّہ کے نواہی گاؤں میں منتقل ہو گئے۔
پچھلے چار برسوں کے دوران اسے کوئی ملنے نہ آیاتھا۔آتا بھی کیسے؟ اتنی دور آنے کی سکت کس میں تھی۔ بکھاں کو کوئی گلہ بھی نہ تھا۔ لیکن میکے کی جو کھینچ تھی اسکے دل میں وہ اسے ختم نہ کر سکی۔اس کے من میں ایک پھانس رہتی۔اسے اپنی امبڑی، اپنی ماں جائیوں کی فکر رہتی۔اسے اپنے میاں جی کا خیال ستاتا کہ وہ اتنی بیٹیوں کی زمہ داریوں کے بوجھ تلے کیسے زندگی بتا رہے ہوں گے؟۔اسکا وجود تو لیّہ میں تھا مگر اسکی روح دور وسطی پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پرواز کرتی رہتی جہاں اسکے ماں باپ اسکے پیارے بستے تھے۔ اچانک کھڑکی کے اُس پار ہلچل مچی تو بکھّاں کے خیالوں کا تسلسل ٹوٹ گیا۔ سورج اپنی منزلیں طے کرتا ہوا مغرب میں اتر رہا تھا۔جسکی تمازت کھڑکی سے اندر پھیل رہی تھی۔اس نے باہر جھانکا۔کوئی تانگہ آکے رکا تھا۔ سفید کپڑوں میں ملبوس ایک دراز قد اورباریش آدمی تانگے سے اتررہا تھا۔ "میاں جی" ۔۔۔۔۔خوشی سے اس کے منہ سے چیخ نکلی اور وہ پیلی چنری سر پہ اوڑھتے ہوئے دروازے کی طرف لپکی۔ میرے میاں جی۔۔۔۔وہ تڑپ کے آگے بڑھی۔میاں جی نے اسے اپنی بغل میں لے کر سر پہ ہاتھ پھرا۔۔
''کیسی ہے میری دھی؟ ''
میاں جی نے پوچھا تو وہ پھوٹ کے رو دی۔۔
''تساں مینوں بھل گئے سن میاں جی''۔۔
''نا پتر تو تو میری بکھا ں ہے۔۔میری بکھاں والی، کرماں والی دھی۔اتنی دور کے پینڈے۔بس انہاں نے روک رکھا۔پر تیری بی بی روز لڑتی تھی مجھ سے کہ جاؤ اور میری بکھاں کی خبر لاؤ۔ پردیساں وچ جانے کیا کرتی ہووے گی''۔۔
وہ چلتے چلتے نیم کے نیچے بچھی چارپائی تک آئے اور اسے ساتھ لگا کر بیٹھ گئے۔۔
''میں ہر روز اڈیکتی تھی''۔ بکھاں نے ٹھنک کر شکوہ کیا ۔ آنسو تھے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔
'' کملیئے کیوں روتی ہے۔تو بوٹی ہے میرے جگر کی ۔تیرا میاں جی آ تو گیا ہے۔۔شیر پتر بن۔۔چل مجھے کوئی لسّی پانی دے''۔۔
وہ چونک کے اٹھی۔ ۔نئی چارپائی نکالی.. اس پرسفید کھیس بچھایا. ۔حقہ تازہ کر کے ان کے پاس رکھا۔ہمسائے سے تایا کو بلا کر اصیل ککڑ حلال کروا کے ہانڈی چڑھا دی۔۔آج اس کے تلّوے زمین پر نہیں لگ رہے تھے۔وہ پٹولا بنی گھوم رہی تھی۔اس کی بی بی نے اس کے لیے سامان بھیجا تھا۔ جو وہ گٹھری سے نکال کے دیکھ رہی تھی۔اس کے کپڑے تھے،گڑ تھا،چاندی کی بالیاں تھیں۔دیکھ دیکھ کے بچوں کی طرح اسکی قلقاریاں نکل رہی تھیں۔اسی دوران شریف گھر میں داخل ہوا۔اس نے چاروں طرف نظر دوڑائی۔گھر کا منظر بدلا ہوا تھا۔نیلے رنگ کے نئے جوڑے میں ملبوس بکھاں اسکے سامنے آئی۔۔
''پیرو کے اباّ۔۔۔میرے میاں جی آئے ہیں ''۔۔
اس نے چہکتے ہوئے اطلاع دی۔مگر فطرت سے مجبور شریف کے ماتھے پر تو بل پڑ گئے تھے۔
''آگیا ہے تو میں کیا کروں؟دوھڑے گاؤں؟''
وہ بے زاری سے بولا اور ریڑھی سے چارہ اتارنے میں مصروف رہا۔بکھاں کے ارمانوں پر اوس پڑ گئی۔تسلی سے کام ناٹک کر شریف مہمان کے پاس آیا اور سلام کر کے حقہ پینے بیٹھ گیا۔دور تندور پہ روٹیاں لگاتی بکھّاں نے اس کے تیور بھانپ لیے تھے " یہ کوئی رنگ دکھائے گا آج" وہ منہ میں بڑبڑائی۔.. ربّا خیر رکھیں.. اس نے گہری سانس لیتے دل میں دعا کی۔مگر شائید وہ گھڑی قبولیت کی نہیں تھی۔جب بکھّاں میاں جی کے سامنے کھانا لگا رہی تھی تو شریف کی دھاڑ سنائی دی
'' بد ذاتے وچھّا کدھر ہے''؟۔
وہ جو پچھلے ایک گھنٹے سے بکھاں پر برسنے کا بہانہ ڈھونڈ رہا تھاآخر کار اسے بہانہ مل گیا تھا۔
اس نے سب کچھ وہیں چھوڑا اور مویشیوں کی طرف بھاگی۔ جانور رسّہ تڑوا کر جانے کب باہر نکل گیا تھا۔
''ادھ ۔۔۔۔ادھر ہی ہو گا کہیں''۔ وہ منمنائی۔۔ ''پیرُو وے پیرُو ۔ ۔ جا بھاگ کے جا دیکھ کدھر گیا وچھّا۔ وہ پیرُو کو آوازیں دینے لگی''
شریف نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور بکھاں کو دو ہاتھ جڑ دیے
''اوئے جوانا! ۔۔۔۔۔۔۔ٹھل جا ۔۔۔۔۔۔حیا کر۔۔میاں جی کھانا چھوڑ کر آ گئے''۔
''تو جا روٹیاں توڑ وڈی حیا والیا۔۔اپنی دھی کی کرتوتیں نہیں دیکھی تم نے؟باشی عورت''۔
وہ جانے کیا کیا کہہ رہا تھا کہ میاں جی کا ہاتھ اٹھا اور اس کے منہ پر نشان چھوڑ گیا۔
''بے حیا۔ کسی آئے گئے کا ہی حیا کر لے ''۔
میاں جی مارے ضبط کے کانپ رہے تھے۔شریف کے منہ سے تف اڑنے لگی۔۔وہ میاں جی کے گلے پڑ گیا اور ان کی قمیض پھاڑ دی۔ لات مار کے چارپائی الٹا دی۔۔سالن کا کٹورا میاں جی کی پگڑی پر گرا اور پگڑی کٹورے سمیت زمین پر گری۔ساتھ ہی عزت بھی خاک میں مل گئی۔۔
''چل نکل میرے گھر سے''۔
وہ میاں جی کو کھینچنے لگا۔۔
''رب کا واسطہ ہے پیرُو کے پیو۔۔نہ تماشا کر۔۔میرا میاں چار ورے بعد آیا ہے''
بکھاں شریف کی منتیں کرنے لگی۔
''تو بھی چل ساتھ ہی''۔
اس نے بکھّا ں کو دھکا دیا۔۔ اتنے میں لوگ جمع ہو گئے ۔۔سب شریف کو سمجھانے لگے۔۔کسی نے وچھّا لا کر باندھ بھی دیا تھا۔۔مگراتنی دیر میں منظر بدل چکا تھا۔۔سی تک نہ کرنے والی بکھّاں زمین پر بیٹھی دو ہتھڑ مار مار کر ، خاک اڑا کے خود پہ ڈال رہی تھی۔۔میاں جی نے پگ اٹھائی اور گلے میں ڈال کر اس کے پاس آئے۔۔
''اچھا دھیے۔تیرے باپ کی بدنصیبی کہ یہ دن بھی دیکھنا تھا۔رب کسی ویری کو بھی دھیوؤں کے دکھ نہ دکھائے''۔
وہ سرخ آنکھیں لیے کانپتی آواز میں گویا ہوے ۔۔انہوں نے شکستہ انداز میں اسکے سے پر ہاتھ پھیرا اور دروازے کی طرف چل دیے۔۔
''میاں جی۔۔۔وہ درد سے چلائی ۔۔میرے اچے کُلے والے میاں جی۔۔۔۔۔ہائے وے ڈاڈھیا ربا۔۔ویکھ تھلّے آ کے ویکھ ا ج میرے میاں جی کی پگ رل گئی ''۔۔
میاں جی ہٹکورے لیتے ہوئے لمبی لمبی قدم اٹھاتے دور جا رہے تھے وہ اُن کے پیچھے بھاگی۔اس کی ہمسائی نے اسے پکڑا۔۔
''پاگل نہ بن بکھّاں خود کو سنبھال۔۔ شریف نے تیرے میاں جی کے ساتھ بہت برا کیا۔۔مگر توُ جائے گی تو توُاور برا کرے گی۔تجھے ادھر ہی رہنا ہے۔۔یہی بہتر ہے۔۔تیرے لیے ۔ تیرے میاں جی کے لیے۔۔تیری بہنوں کے لیے۔۔توُاگر آج چلی جائے گی تو سوچ کیا ہو گا۔وہ وہیں زمین پر ڈھیر ہو گئی'' ۔
اسکا کلیجہ پھٹ رہا تھا .ذلت کے شدید ترین احساس سے اسکا وجود کانپ رہا تھا۔اسکی آنکھی لہو رنگ ہو رہی تھیں۔۔آج وہ حقیقتا بکھر گئ تھی۔۔آہ و زاری سے اس کے گلے کی رگیں پھٹنے کے قریب ہو گئیں۔کچھ توقف کے بعد وہ اچانک اُٹھ کے بھاگی۔۔گاؤں سے باہر نکلی اورایک ٹیلے پر چڑھ کر میاں جی کو دیکھنے لگی۔وہ روتے ہوئے، ٹیڑھے میڑھے ریتلے راستے پر تیز تیز چلے جا رہے تھے۔اس کی ہچکیاں تھم رہی تھیں۔۔طوفان آکر گزرچکا تھا۔۔ہاتھ کا چھجا بنا کر آنکھوں پہ سایہ کیے وہ انہیں دیکھتی رہی یہاں تک کہ وہ نقطہ بنےاور غائب ہو گئے ۔۔شام ہو رہی تھے۔۔آسمان پر پرندے غول در غول اپنے گھونسلوں کی جانب لوٹ رہے تھے۔اسے بھی واپس جانا تھا۔

''اے بکھّاں۔۔اے بکھّاں۔۔۔۔اُٹھ۔۔اُٹھ جا۔۔۔۔۔کوئی اسے کندھے سے پکر کر جھنجھوڑ رہا تھا۔مگر بکھّاں کو آج کوئی خوف نہیں تھا اس لیے شریف کے جھنجھوڑنے کا اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔۔۔اے اٹھ بدبختے۔اکّڑ دیکھاتی ہے؟۔۔شریف نے جھلّا کر اس کا کاندھا کھینچ کر اپنی طرف کیا۔بکھّا ں کی نیم واہ آنکھیں بے جان تھیں۔۔ساری رات اذیت کے دوذخ میں جلنے والی بکھّاں کو راہ فرار مل گئی تھی،اب کوئی اس کو تکلیف نہیں دے سکتا تھا۔۔اب کبھی اس کی وجہ سے اسکے میاں جی کی پگ روندی نہیں جا ئے گی۔

دوہرا معیار

0 comments

دہرا معیار

دفتر کی سیڑھیاں اترتے ہوئے پارکنگ لاٹ میں کھڑی اپنی گاڑی تک پہنچتے پہنچتے کمال پسینے میں شرابور ہو چکا تھا ، گاڑی میں بیٹھتے ہی اس نے  گاڑی اسٹارٹ کی.. ''اے سی'' آن کر دیا اور ڈیش بورڈ میں پڑے تولیے سے چہرہ صاف کرنے لگا۔ ''اُف کتنی گرمی ہے!'' اس کے منہ سے بے اختیار نکلا۔ گو کہ آفس مکمل طور پر ایئر کنڈیشنڈ تھا مگر مین بلڈنگ سے پارکنگ تک پھیلی اوائل جولائی کی کڑاکے دار دھوپ حواس باختہ کرنے کیلئے کافی تھی۔ اس نے کلائی موڑ کر گھڑی پر وقت دیکھا۔ شام کے چار بج رہے تھے اس نے گاڑی ریورس گئیر میں ڈالتے ہوئے موڑی اور قریبی مارکیٹ کی طرف بڑھا دی۔ اُسے اپنی پانچ سالہ اکلوتی بیٹی کیلئے ٹیڈی بیئر لینا تھا ۔ اسکی چہیتی بیوی کوئی تین دفعہ فون کرکے اسے یاد دہانی کروا چکی تھی کہ اُفق سکول سے آتے ہی ٹیڈی بیئر لینے کیلئے بضد ہے جیسا اس نے اپنے دوست کے پاس دیکھا تھا ۔ ۔ ۔ دونوں میاں بیوی اپنی بیٹی سے بے حد محبت کرتے تھے اور ہمیشہ بہترین والدین کی فہرست میں شامل ہونے کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے۔
آج وہ دو گھنٹے پہلے ہی آفس سے نکل آیا تھا۔ فرم کے مینجر سے اس کے پیشہ وارانہ اختلافات عروج پر تھے اور اسکا آفس میں بیٹھنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا۔ ''میں گھر کیلئے نکل رہا ہوں'' اس نے اپنی بیوی کو میسج کیا۔ قریبی مارکیٹ سے گھر کیلئے سامان خریدنے کے بعد وہ کھلونوں کی ایک شاپ میں جا گھسا۔ اس نے بے بی پنک کا نہایت خوبصورت اور نفیس ٹیڈی بیئر پسند کیا، ٹیگ پر لگی قیمت دیکھی، کاؤنٹرپر ادائیگی کی اور واپسی کیلئے گاڑی موڑ دی۔ اسے عجیب سے جھنجھلاہٹ ہو رہی تھی،
شاید موسم کا اثر تھا ویسے بھی گرمی اس سے برداشت نہیں ہوتی تھی یہی وجہ تھی کہ وہ اتنی سی خواری سے ہی تنگ آگیا۔ علاقہ کے اس ٹوٹے پھوٹے سے چوک سے گزرتے ہوئے وہ کھڑکی سے باہر جھانکنے لگا۔ اسے آموں کی تلاش کی تھی۔ وہ فٹ پاتھ کے ساتھ ساتھ گاڑی چلاتے ہوئے چوک کے موڑ پر کھڑی لاتعداد ریڑھیوں کا جائزہ لینے لگا جو خوشنما پھلوں سے لدی ہوئی تھیں۔ جن میں آم کا پیلا پیلا رنگ اور مخصوس خوشبو نمایاں تھی۔ اسے آم بے حد پسند تھے وہ مارکیٹ سے پھل خریدنے کی بجائے ہمیشہ ریڑھیوں اور ٹھیلوں سے خریدنے کو ترجیح دیتا تھا کیونکہ اس کے خیال میں ادھر پھل نسبتاً تازہ اور سستا ملتا تھا۔ ریڑھیوں کا جائزہ لیتے ہوئے اس نے بریک لگائے۔ آموں کی وہ ریڑھی جس پر اسکی نظر تھی فٹ پاتھ سے تھوڑا پیچھے کھڑی تھی۔ گاڑی کو رکتے دیکھ کر ریڑھی کے مالک کا لڑکا پھرتی سے گاڑی کی طرف لپکا۔
''جی صاحب جی'' لڑکے نے پیشہ وارانہ انداز میں کمال کو مخاطب کیا ۔ گاڑی کا شیشہ نیچے کرکے کمال نے لڑکے کا جائزہ لیا۔ میلے کچیلے کپڑوں میں سے پسینے کی بدبو کے بھبھوکے اُٹھ رہے تھے اور چمکتی ہوئی دھوپ اسکی رنگت سیاہ کر رہی تھی۔
کندھے پر لٹکتے جھاڑن سے وہ بار بار اپنا پسینہ صاف کر رہا تھا۔ ناگوار بو کمال کے نتھنوں سے ٹکرائی تو اسکے ماتھے پر بل پڑ گئے۔ ''کیا ریٹ ہے؟'' اس نے کرخت لہجے میں پوچھا۔ ''صاحب آم بڑے اچھے ہیں، پورے روڈ پر اس سے بہتر آم آپ کو نہیں ملینگے۔ ابھی گھنٹہ پہلے مال اترا ہے''یہ بتاتے ہوئے لڑکے کی باچھیں کھل رہی تھیں اس کے پیلے دانت اس کے چہرے کے مقابلے میں قدرے نمایاں تھے۔
''میں نے ریٹ پوچھا ہے'' کمال نے سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا۔''ایک سو چالیس روپے کلو صاحب!'' لڑکے نے دور سے اپنے باپ سے پوچھتے ہوئے جواب دیا تو کمال خاموشی سے آموں کا جائزہ لینے لگا۔ شہتوت کے چھوٹے سے درخت کے نیچے کھڑی ریڑھی پر دھوپ چھن چھن کر پڑ رہی تھی۔ ریڑھی والا پانی چھڑک چھڑک کر پھل کو تازہ رکھنے کی کوشش میں مصروف تھا۔
''یہ ریٹ آموں کے لگائے ہیں یا پانی کے؟'' اس نے طنزیہ لہجے میں استفسار کیا۔
''صاحب گرمی بہت ہے، یہ تو کرنا پڑتا ہے، ویسے بھی آم ہیں کوئی گوشت تھوڑی ہیں کہ پانی لگنے سے وزن بڑھ جائے گا!'' لڑکا شاطر تھا اور کمال کو لاجواب کر گیا۔ ''اسی روپے لگاؤ اور پانچ کلو تول دو'' کمال نے بغیر کسی کھسیاہٹ کے کہا۔
''نہیں صاحب! اتنا فرق نہیں ہوتا، اتنے کی تو اپنی خرید بھی نہیں ہے'' لڑکا ٹرینڈ تھا
''اوکے سو روپے کافی ہیں؟'' کمال نے بھاؤ بڑھائے ہوئے کہا''نہیں صاحب!'' لڑکا پچیھے ہٹ گیا ''ایک سو بیس سے ایک پیسہ بھی کم نہیں لوں گا'' لڑکے کا اپنے مال کی قدر کا اندازہ تھا اسی لیے اس نے دوٹوک لہجہ اپنایا۔ کمال کو لڑکے پر غصہ آرہا تھا لیکن اس نے بھانپ لیا کہ ایسا پھل اسے کسی اور ریڑھی سے نہیں ملنے والا۔ لہذا اس نے مزید بارگیننگ سے اکتاتے ہوئے لڑکے کو پھل تولنے کو کہا۔ لڑکے نے وہیں سے اپنے باپ کو پانچ کلو تولنے کا اشارہ کیا۔ کمال جیب سے پیسے نکالنے لگا۔
پھل لیکر گاڑی کی طرف آتے ہوئے لڑکے کا پاؤں اچانک کسی چیز سے ٹکرایا اور اسکے کندھے پر پڑی ہوئی جھاڑن کے چھوٹے سے چوبی دستے نے نجانے کیسے کھڑکی پر لمبا سا نشان چھوڑ دیا۔''ایڈیٹ!!'' کمال غصے سے آگ بگولا ہوکر چلایا۔ اس نے تیزی سے سیٹ چھوڑی اور پھرتی سے باہر نکل کر لڑکے کو گردن سے ڈبوچ لیا۔ ''غلطی ہو گئی صاحب'' اس کے بگڑے ہوئے تیور دیکھ کر لڑکا سہم گیا۔ حالات کی سختی نے اس کی معصومیت چھین لی تھی۔ مگر اسکی عمر بارہ سال سے زیادہ نہیں لگ رہی تھی۔ ''الو کے پٹھے! اسے غلطی کہتے ہو؟ اتنا نقصان کر دیا میرا'' کمال نے لڑکے کو تھپڑ رسید کر دیا۔ اتنے میں لوگوں کا مجمع لگ گیا۔ لڑکا زمین بکھرے آموں کے درمیان گرنے کے انداز میں بیٹھا ہوا تھا۔ اسکا باپ ملتجی لہجے میں معافی مانگ رہا تھا۔ سب لوگ اپنے اپنے طریقے سے اسکا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ آخر کار غصے کے اثرات معدوم ہونے لگے۔
''ٹھیک ہے! ٹھیک ہے!'' اس نے تیز تیز لہجے میں کہتے ہوئے احسان جتایا کیونکہ اس کا فون بج رہا تھا اور سکرین پر اسی بیوی کا نام جگمگا رہا تھا۔ اس نے واپس گاڑی میں بیٹھے ہوئے فون ریسیو کیا۔
''آپ آئے کیوں نہیں ابھی تک؟''فون اٹھاتے ہی اسکی بیوی نے پوچھا۔
''میں آرہا ہوں بھئی، راستہ میں ہوں'' اس نے اپنی آواز ہموار کرتے ہوئے بیوی کو جواب دیا اور فون بند کر دیا۔ گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے اس نے اچٹتی سی نظر باہر کے منظر پر ڈالی۔ لڑکے کا باپ لڑکے کو لعن طعن کر رہا تھا جبکہ لڑکا زمین پر بکھرے آم اکھٹے کرکے واپس شاپر میں ڈال رہا تھا۔ اس نے گاڑی کی رفتار بڑھاتے ہوئے انگلش میوزک آن کیا اور گنگنانے لگا۔ اسکی جھنجھلاہٹ ختم ہو رہی تھی۔ گھر تک پہنچتے اس کے چہرے پر مسکراہٹ چمکنے لگی۔ اس مسکراہٹ کی وجہ بھی گھر کا گیٹ کھلتے ہی سامنے آگئی۔ اسکی معصوم پھول جیسی بیٹی گرین ٹی شرٹ اور جینز پہنے ہارن کی آواز سن کر بھاگی آرہی تھی۔
''پاپا آگئے!!'' گاڑی سے اترتے ہی وہ اسکی ٹانگوں سے لپٹ گئی۔''میرا بچہ!! اس نے لاڈ سے اسے گود میں اٹھالیا۔ ''پاپا میلا تیدی بیئل کہاں ہے؟'' گیٹ سے روم تک پہنچتے ننھی افق اس سے دس مرتبہ یہ سوال کر چکی تھی۔''پاپا کے شیر سب کچھ لایا ہوں'۔ کمال نے افق نے نتھے ننھے ہاتھ چومتے ہوئے جواب دیا۔
''آپ کو پتہ ہے آپ کی لاڈلی بیٹی نے آج کیا کیا؟ بیوی اسکا کوٹ اتارتے ہوئے بولی۔ اس نے دریافت کیا تو بیوی نے سامنے دیورا کی طرف اشارہ کردیا۔ ایئر کنڈیشنر کے درجہ حرارت کو مزید کم کرتے ہوئے کمال نے دیوار پر نگاہ ڈالی۔ اسکی
شادی کی بڑی سی تصویر دیوار پر ٹیڑھی لٹک رہی تھی اور اسکی بیوی والی سائیڈ پر شیشے میں مکڑی کے جالے کی شبیہ ابھر آئی تھی۔ وہیں ذرا نیچے فرش پر ایک گیند پڑی ساری کہانی بیان کر رہی تھی۔ صوفے پر ڈھیر ہوتے ہوئے اس نے افق کو دیکھا اب ٹی وی کا ریمورٹ کنٹرول ہاتھ میں پکڑے کارٹون دیکھ رہی تھی۔
''جانے دیا کرو بیگم، وہ بچی ہے، فریم اور آجائے گا'' اس نے نرم لہجے میں بیوی کو سمجھاتے ہوئے آنکھیں موند لیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔