Sunday 22 November 2015

شکار

5 comments

بوڑھا نذیر احمد دم سادھے چھت کی چار دیواری پہ بنے سوراخوں سے نیچے جھانک رہا تھا. اس کی نظریں سامنے سرمئی رنگ کے چھوٹے سے گیٹ پر مرکوز تھیں. جہاں ہر قسم کی جنبش ندارد تھی. کافی دیر انتظار کرنے کے بعد جب اسے سرمئی گیٹ پر اپنی دلچسپی کا سامان دکھائی نا دیا تو وہ ایک موٹی گالی دیتے ہوئے پیچھے مڑ کر چارپائی پر جا بیٹھا اور بجھتی ہوئی چلم کی نیم گرم راکھ انگلیوں سے کرید کر حقہ گڑگڑانے لگا. رات کے دو بج رہے تھے. قمری مہینے کا آخری عشرہ تھا.. چاند کی دودھیا روشنی شہتوت کے  پیڑ کے گھنے پتوں میں سے چھن چھن کر اس تک پہنچ رہی تھی۔ جس کی وجہ سے  اسکا سانولا چہرہ اس تانبے کے ٹکڑے کی طرح چمک رہا تھا جسکی سطح پر بڑے بڑے سیاہ دھبے پڑ گئے تھے۔ ‘آج یکا لیٹ کیوں ہے’۔۔ وہ منہ  میں بڑبڑایا۔۔ اچانک گلی میں ذرہ سی آہٹ ہوئی۔ نذیر احمد اس آہٹ سے اچھی طرح واقف تھا۔ وہ دیوار کی جانب لپکا اور چوکور سوراخ میں سے جھانکنے لگا۔ حسب توقع وہاں وہی منظر تھا جس کا وہ پچھلے دو ماہ سے مشاہدہ کر رہا تھا۔ ایک سایا دیوار کی چھاؤں میں چلتا ہوا سرمئی گیٹ کے سامنے آکر رکا اور موبائل کی سکرین پر جھک گیا۔ اگلے ہی لمحے گیٹ کھلا ، سائے نے آخری بار احتیاط ادھر ادھر نگاہ دوڑائی اور غائب ہو گیا ۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس کی پشت پر بنے مکان کی چھت پر نذیر احمد مسلسل دو ماہ سے اسکا رازدار بنا ہوا ہے۔ گیٹ دوبارہ ابدی سکوت میں جا چکا تھا۔ منظر ختم ہو چکا تھا مگر نذیر احمد کے بدن میں سوئیاں چبھ رہی تھیں۔ وہ کافی دیر سوراخ سے آنکھ ٹکائے بیٹھا رہا جیسے گیٹ کے اس پار جھاکنے کی کوشش میں ہو۔ ہیجان سے اسکے خون کا خلفشار بڑھنے لگا اوروہ  چارپائی پر گر کر لمبی لمبی آہیں بھرنے لگا جیسے اپنے اندر کی حبس کو سانس کے ذریعے خارج کرنے کی سعی کر رہا ہو۔ اس نے آنکھیں بند کیں اور سرمئی گیٹ میں جا گھسا۔ جس کے سامنے بنے تین کمروں میں سے دو میں زیرو پاور کے بلب روشن تھے۔ لیکن اسے ان کمروں سے غرض نہیں تھی۔ اسکی دلچسپی تیسرا کمرہ تھی جہاں گھسر پھسر ہو رہی تھی۔ ایسی سرگوشیاں اور آہیں۔ اور دبی ہوئی ہنسی جسے اس کے سوا کوئی نہیں سن سکتا تھا۔ اندھیرا ہونے کے باوجود اندر کا منظر اتنا روح پرور تھا کہ اس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے ۔سانسیں آندھی کی شکل شدت اختیار گئیں۔ اسکا ہاتھ تیزی سے حرکت کرنے لگا اور ایک لمبی کراہ کے ساتھ ہی اس کے ارد گرد خاموشی چھا گئی۔ البتہ گلی میں دو کتوں نے بھونکنا شروع کر دیا تھا جو اس بات کی علامت تھی کہ سایہ سرمئی گیٹ چھوڑ کر جا رہا ہے۔ نذیر احمد نے آنکھیں کھول دیں۔ اسکا بدن پسینے میں شرابور تھا۔ اتنے لمبے رات جگے سے اسکی آنکھوں میں جلن شروع ہو گئی تھی۔ پپوٹے بوجھ کی وجہ سے بار بار آنکھوں پر گر رہے تھے۔ سامنے چاند اپنی آخری منزل طے کرتے ہوئے اسے چہرے پر آ جھکا تھا۔ اس نے آخری دفعہ چاند کو دیکھنے کی کوشش کی لیکن نگاہ اٹھانے سے پہلے ہی وہ گہری نیند میں چلا گیا۔

وہ صبح دیر تک سوتا رہا۔۔ منڈیر پر بیٹھے کالے کووں کی کائیں کائیں اور شہتوت کے پیڑ کی سر سبز شاخوں پر پھدکتی چڑیایوں کی چوں چوں اسے اٹھانے میں ناکام رہی۔ چاند کی دھیمی تھپتھپاتی روشنی کی جگہ اب سورج کی تیز تمازت نے لے لی تھی۔ یہ تمازت نذیر احمد کا جسم جلانے لگی تو اسے اٹھنا پڑا۔اس نے اٹھ کر درخت کی نرم شاخ کو کھینچ کر مسواک بنائی۔ اور دانت چمکاتے ہوئے گلی میں دیکھنے لگا۔ گلی میں زندگی اپنے عروج پر تھی۔ لوگ آ جا رہے تھے۔ بچے ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔ کچھ اشیا خوردونوش بیچنے والے ٹھیلے کے گرد جمع تھے جو ہر پانچ منٹس کے وقفے کے بعد اپنی مخصوص لے میں آواز لگاتا۔ سرمئی گیٹ اب نیم واہ تھا۔ بدامی شلوار قیمض پہنے ایک لحیم شیم ادھیڑ عمرشخص سکوٹر پر گیٹ میں سے برآمد ہوا۔ ماں کا ۔۔۔۔ نذیر نے حقارت سے زیر لب موٹی گالی دی۔ کھوتے کے پتر کو پتا ہی نہیں کہ اس کے گھر میں کیا گل کھلائے جا رہے ہیں۔

چاہیے تو یہ تھا نذیر احمد خاموش تماشائی بنا رہتا۔ وہ خاموشی سے منظر کا مزہ لیتا اور غیر جانبداری سے اسکے اختتام  کا انتظار کرتا۔ اس میں اس کا بھی فائدہ تھا  اور اس سرمئی گیٹ کے مکینوں کا بھی مگر اب اسکی زبان پر کھجلی ہونے لگی تھی۔ اپنی دانست میں اس نے دو ماہ چپ رہ کر بہت دریا دلی دیکھائی تھی۔ اب  اسکا ظرف ابلنے لگا تھا۔ اپنی بیوی کی وفات کے بعد جس شے سے وہ پچھلے دس سالوں سے محروم تھا اس کی ناک کے نیچے وہ کل کے چھتونگڑوں کو میسر تھی۔ اسے بے چینی ہوتی تھی۔  بے خوابی اور جسمانی کمزوری نے اسے نقاہت اور اعصابی تناؤ میں مبتلا کر دیا تھا۔ اسکی صحت گرنے لگی تھی۔ اگرچہ وہ چوک میں جا کر دودھی دہی ڈکارتا تھا اور ناصر سبزی فروش سے درجن بھر کیلے لے کر کھاتا تھا پھر بھی اسکی صحت اب اسکا ساتھ دینے سے قاصر تھی۔ لہذا حفظان صحت کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اور محلے کے پرانگدہ ہوتے ماحول کی صفائی ستھرائی کی خاطر وہ بذات خود اس سیرئیل کا ڈراپ سیین کرنے کے بارے میں پرتولنے لگا۔ پہلے مرحلے میں اس نے ناصر کو اپنا رازدان بنانے کا فیصلہ کیا۔ اسکے ساتھ اسکی کافی بے تکلفی تھی۔ وہ دوکان پر پہنچا تو وہاں رش لگا ہوا تھا۔ وہ کرسی پر بیٹھا اور  سست روی سے پھل کھاتے ہوئے ناصر کا اسکے گاہکوں کے ساتھ لین دین  کا بغور مشاہدہ کرنے لگا۔ اس نے ناصر سے نظر بچا کر کئی چھلکے سبزی کی ٹوکری کی آڑ میں پھینک دیے جہاں گاہک کھڑے تھے۔ تو کس چکر میں آجکل طاقت بنا رہا ہے۔ بیوی کی قبر پر جانے لگا ہے کیا؟؟ ناصر نے کیلے کے چھلکے گنے اور اس سے پیسے وصولتے ہوئے آنکھ ماری۔۔۔ اس کی تو ہڈیاں بھی نہیں بچی ہوں گی۔ اس کی قبر پہ جا کر کیا کروں گا۔ ۔ اس نے ڈھٹائی سے دانت نکالتے ہوئے جیب میں بقایا پیسے ڈالے ۔ یہاں اپنے محلے میں رنگین فلم لگی ہوئی ہے۔ اس کے چیزے لیتا ہوں ۔ اس نے جوابنا آنکھ جھپکائی۔ تیری ایسی قسمت۔۔ چل پھوٹ ادھر سے۔۔ ناصر اب اپنے دوسرے گاہک کی طرف متوجہ تھا۔ وہ پیر گھسیٹتا وہاں سے نکل آیا۔


اسے گھر میں کوئی کام نہیں تھا۔ اسکی بہویں اسے منہ کم لگاتی تھیں۔ اسے دیکھتے ہی ان کے ماتھے پر بل پڑ جاتے۔ وہ کافی دیر ادھر ادھر بے مقصد گھومتا رہا۔ سہ پہر کا وقت تھا۔ بازار میں عورتیں زیادہ نظر آ رہی تھیں۔ کوئی اپنے بچوں کو ٹیوشن چھوڑنے جا رہی تھی۔ کوئی سبزی والے سے بھاؤ تاؤ کر رہی تھی۔ کوئی سودا سلف لینے نکلی تھی اور کوئی اس کی طرح ہمسائیوں کی کن سوئیاں لینے نکلی تھی۔ اس معاملے میں نذیر احمد کی معلومات کمال کی تھیں۔ بنا کبھی ہمکلام ہوئے اسے معلوم ہوتا کہ کون کس کی بیوی ہے۔ کس کی بیٹی ہے اور کسی کی بہو ہے۔ کون کب نکتی ہے اور کہاں جاتی ہے۔ وہ اکثر آتی جاتی ان عورتوں کی سن گن لیتا۔ ان کے پائیجاموں کی چستی ناپتا۔۔ قیمضوں کے چاکوں میں سے جھانکتے سپید و سانولے، بوسیدہ و تروتازہ  پیٹ تاڑتا۔۔ چادروں برقوں اور دوپٹوں میں سے ابھر ابھر کر اپنی موجودگی کا احساس دلاتی چھاتیوں کو اپنی آنکھوں کے فیتے سے  ناپتا اور آگے نکل جاتا۔ وہ محلے کے خالی پلاٹ کی طرف نکل گیا جہاں لڑکے فارغ اوقت میں کھیل کود کرتے تھے۔آج جمعہ تھا۔ کام کاج سے چھٹی کی وجہ سے وہاں بھی رش تھا۔ وہ وہاں پہنچا تولڑکوں کے دو گروپ آپس میں دست و گریبان تھے۔ وہ پرانی اینٹوں کے ایک ڈھیر پر چڑھ کر بیٹھ گیا اور سگریٹ سلگاتے ہوئے تماشا دیکھ کر زیر لب مسکرانے لگا۔ کچھ توقف کے بعد جب معاملہ ٹھنڈا ہو گیا اور سب لوگ ادھر ادھر بکھر گیے تو اسکے محلے کے لڑکوں کا ایک گروہ اس کو دیکھ کر رک گیا۔ سنا چاچا کیسا ہے؟۔ لا ہمیں بھی ایک سیگریٹ دے۔ اپنی جیب خرید کر پیا کرو ۔۔۔و ۔اس نے اپنی جیب اپنی مٹھی میں دبا لی۔۔ چاچا تجھے پینشن ملتی ہے۔ گھر میں تیرا کوئی خرچا نہیں۔ سیٹھ آدمی ہے تو۔ پھر بھی یہ کنجوسی۔۔ لڑکوں میں سے ایک جو سب سے زیادہ شاطر نظر آ رہا تھا اس نے ہاتھا پائی کی اور سگریٹ کا پیک اڑانے میں کامیاب ہو گیا۔ سب نے سگریٹ جلائے اور پیتے ہوئے ادھر ادھر کی ہانکنے لگے۔۔۔ گپ شپ شروع ہوئی تو سرمئی گیٹ کے اس پار رہنے والی  عابدہ پر جا رکی۔ نذیر احمد نے ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سب کچھ اگل دیا۔ البتہ فطری حیا اور شرم کی وجہ سے وہ یہ نا بتا سکا کہ اکثر وہ بھی سائے کے ساتھ تخیلاتی طور پر ہی سہی مگر سرمئی گیٹ کے آر پار چکر کاٹتا ہے۔ اس کے بعد حیرت۔۔ ملے جلے قہقے۔۔ گندے تبصرے لعن طعن اور گالیاں تھیں۔ جب وہ سب وہاں سے اٹھے تو ان میں سے کچھ شدید حسد اور جلن سے لبریز جذبات کا شکار ہو چکے تھے۔ گروہ کا سرغنہ طارق جو شکل سے ایک گھاگھ شکاری معلوم ہوتا تھا۔ اب شکار کے موڈ میں نظر آ رہا تھا۔ کوئی بیگانہ شخص آ کر اسکے محلے کی ملائی پہ ہاتھ صاف کر رہا تھا اور اسے خبر بھی نہیں تھی۔۔  اس نے کتنی دفعہ عابدہ پر چانس مارا تھا۔ مگر کمینی نے اسے گھاس نہیں ڈالی تھی۔ الٹا پارسائی کا ڈرامہ رچاتے ہوئے اپنے ابا کو اسکی شکایت کر دی تھی۔ سرمئی گیٹ کے اس پار پردے میں رہنے والی عابدہ جو شازو نادر ہی گھر سے نکلتی تھی اور ہمیشہ چہرہ ڈھانپتی تھی اب ایک بے لباس ۔۔ بدکردار فاحشہ کی شکل میں اس کے چشم تصور کےسامنے لہرا رہی تھی۔  اسکی حرکات ناقابل معافی تھیں۔ لہزا وہ لوگ عابدہ  کے لیے سزا تجویز کر رہے تھے۔

ایک دن طارق اس کے پاس آیا اورباتوں باتوں میں تمام ضروری تفصیلات دریافت کیں۔ مثلا ہفتے میں کتنی دفعہ یہ کاروائی ہوتی ہے؟۔ اسکی آمد کا عمومی وقت کیا ہوتا ہے؟ اور وہ کس راستے سے آتا ہے؟  اگرچہ اسے جلدی تھی مگر پھر بھی اس نے نذیر انہماک سے تمام تفصیلات بتائیں ۔ طارق جب رخصت ہوا تو  بوڑھے نذیراحمد نے یوں ہاتھ جھاڑے جیسے اہم ذمہ داری سے بری الزمہ ہو گیا ہو۔ گرگابی پیروں میں اڑسی اور جیبیں سنبھالتے ہوئے باہر بھاگا کیونکہ اسے شورکوٹ جانے کی جلدی تھی۔ وہاں اسے اپنے سسرالی رشتہ دار کے جنازے میں شرکت کرنی تھی۔ 


آج کی شب معمول سے بڑھ کرتاریک اور خاموش تھی جیسے  ویران درگاہ کی کسی پرانی قبرکا دہانہ کھل گیا ہو۔ چاند نے شائید حالات کی سنگینی بھانپ لی تھی اس لیے اس نے منظر سے غائب ہونا مناسب سمجھا تھا۔ یا پھر وہ نئے مہینے کے آغاز کے لیے کمر کس رہا تھا۔ ہلکے بادلوں کے اکا دکا ٹکرے آسمان پر بے چینی سے ادھر ادھر ٹہل رہے تھے۔ گلی کے کتوں اور بلیوں کو غفور قصائی کی دوکان سے آج چھیپچھڑے وافر مقدار میں میسرآئے تھے کیونکہ آج جمعرات کی وجہ سے گوشت کی بکری زیادہ رہی تھی۔ اس لیےوہ سیر شکم ہو کر اپنی پچھلی ٹانگوں میں منہ چھپائے کونوں کھدروں میں پڑے گہری نیند سو رہے تھے۔ سرمئی گیٹ آج کسی نے ادھ کھلا چھوڑ دیا تھا۔ دو کمروں میں زیرو پاور کے بلب روشن تھے۔ لیکن تیسرا کونے والے کمرے میں آج خلاف معمول بڑا بلب روشن تھا۔ دروازہ اندر سے اچھی طرح  سے بند تھا۔ بلب کی روشنی دروازے کی درزوں میں سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہی تھی جیسے اندر اسکا دم گھٹ رہا ہو۔اکثر رات کی تاریکی میں اس گلی کو ناپنے والے سائے کا چہرہ بلب کی روشنی میں بالکل واضح تھا۔ پینٹ شرٹ میں مبلوس  دبلی پتلی جسامت اور پتلے نقوش سے مزین سپید چہرہ۔ وہ  زمین پر اوندھا پڑا ہوا تھا۔ ۔ ۔ مگر عابدہ چارپائی پر سیدھی لیٹی ہوئی تھی۔ اس کے منہ پر کپڑا ٹھنسا ہوا تھا اور ہاتھ پاؤں  بندھے ہوئے تھے۔ اسکی آنکھیں اپنی پوری سکت کے ساتھ پھیل گئی تھیں۔  یہ اندازہ لگانا بہت مشکل تھا کہ عابدہ کی آنکھیں حیرت سے پھٹی ہوئی تھیں یا تکلیف سے ۔ اس کا جسم ہولے ہولے ہل رہا تھا۔ عابدہ اور اس منحنے لڑکے کو چھوڑ کر کمرے میں کل پانچ آ دمی تھے۔ نذیر احمد اگر شورکوٹ سے واپس آگیا ہوتا اور اس وقت اپنی چھت پہ موجود ہوتا تو شائید آج وہ سرمئی گیٹ کے پار کے اس منظر کو اپنی چشم تصور میں سمو کر اپنی غلاظت نکالنے میں ناکام رہتا۔۔

5 comments:

  • 22 November 2015 at 22:28

    چھا افسانہ ہے اور کل آپ کی فیس بک پوسٹ اس افسانے بارے یہ ظاہر کرتی تھی کہ آپ نے " بہت کھلے پن " سے باتیں کی ہوں گی جبھی " اندیشہ ہائے دور دراز " تھا لیکن یہاں تو بہت کاریگری اور لفظوں کی بچت کرتے ہوئے بہتر تخلیقی صلاحیت کا استعمال ہوا ہے ، مبارکباد

  • 23 November 2015 at 05:00

    یہاں سرکتے ہوئے دوپٹے میں بے شرمی ڈھونڈی جاتی ہے اور بے اختیار قہقہوں کو حیا باختہ قرار دیا جاتا ہے. میرے خدشات اس حوالے سے تھے.. آپ کا شکریہ کہ آپ کو کھلا پن دکھائی نہیں دیا.. اس وسیع القلبی کو سلام

  • 23 November 2015 at 08:25

    آپکا کالم بہت اچها هے اور آپ نے الفاظ بهی بہت گہرے استعمال کئیے هیں

  • 17 December 2015 at 01:27

    اچھا افسانہ ہے۔ ہمارا معاشرہ مجموعی طور پر اسی طرح سوچتا ہے۔

  • 8 May 2016 at 10:06

    اچھا افسانہ ہے۔ سب کچھ بندھا ہوا ہے۔ کردار پختہ ہیں۔ تاثر قائم کرتا ہے۔ اور صرف یہ کہہ دینا کہ یہ جنسی افسانہ ہے یا اس میں عمومی بات کی گئی ہے، غیر مناسب ہے کیونکہ اس میں پلاٹ یکسر انفرادی نوعیت کا ہے۔ کہیں اُردو زبان کے اغلاط ہیں اور کرداروں کے تعارف میں تھوڑی اور بہتری لائی جا سکتی تھی۔ میں اس افسانے کو پسند کرتا ہوں۔ محترمہ داد کی مستحق ہیں۔ لہٰذا دااااااااااااددد۔۔۔۔۔۔

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔