Saturday 19 December 2015

اے سی

4 comments

چھت کا پنکھا سست روی سے گھوم رہا تھا ۔ حاکم کی نگاہیں پنکھے کے محور میں پیوست تھیں۔ پوری سکت سے کھلی ہوئی اسکی آنکھوں پر کسی بھی  دیکھنے والے کو موت کا گماں ہو سکتا تھا  لیکن اسکے سینے کا زیر و بم اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ موت اس سے ابھی کوسوں دور بیٹھی محو تماشہ ہے۔ حاکم نے زور لگاتے ہوئے اپنا بایاں بازو اٹھانے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔۔ اس نے پوری قوت سے اپنی ٹانگ ہلانے کی سعی کی مگر پاؤں کے انگوٹھے میں ہلکی سی جنبش کے سوا کچھ بات نا بن سکی۔۔ ‘میں اس قدر بھی لاچار ہو سکتا ہوں؟’۔۔ اس نے خود سے سوال کیا۔۔ ‘کبھی سوچا تھا کہ انجام اتنا بھیانک ہو گا؟؟’۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘ نہیں تو۔۔۔۔ انجام کب بھیانک ہے’۔۔ اس کے ضمیر نے الہڑ مٹیار کی طرح اتراتے ہوئے اسکی بات کی نفی کی۔۔ ‘اس کمرے کو دیکھو۔ اپنے ارد گرد بکھری ان مہنگی اشیا کو دیکھو۔ان مشینوں کو دیکھو جو تمھاری زندگی کا بوجھ اٹھا رہی ہیں۔۔ اس نفیس چھت کو دیکھو۔ اپنے جہازی پلنگ کو دیکھو۔۔ اس کمرے کی قیمت بیس لاکھ سے کم نا ہو گی۔۔ تم بہت مہنگی موت مرنے جا رہے ہو میرے دوست۔۔۔۔ دنیا تمھاری مرگ پہ رشک کرے گی۔۔۔۔ دیکھنا۔۔۔تمھاری نماز جنازہ علاقے کی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع ہو گا۔۔۔۔۔آخر کو تم سیٹھ حاکم علی گورایا ہو۔ جس کی زندگی پہ ایک زمانہ رشک کرتا ہے۔۔ تم پر یہ لاچاری جچتی نہیں۔۔ تمھیں فاتح نظر آنا چاہیے’’۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے دماغ میں کوئی استراہیہ ہنسی ہنستے ہوئے اعدادو شمار کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔‘‘رشک؟؟ کیسا رشک؟؟ کس چیز کا رشک۔۔۔۔۔ میں اپنی آخری جنگ بغیر تلوار و میان تن تنہا لڑ رہا ہوں۔۔ وہ جنگ جو میں میدان میں اترنے سے پہلے ہی ہار چکا تھا۔۔ لیکن جسکی ہار کا احساس مجھے متاع زندگی لٹا کر ہوا’’۔۔۔۔۔۔۔۔ حاکم کا دم گھٹنے لگا۔۔ اس نے سانس خارج کرنے کی کوشش کی تو سینے میں درد کی ایک گہری ٹھیس اٹھی۔۔ مگر نا تو وہ درد سے کراہ سکا اور نا ہی اپنے جسم کو دہرا کر سکا کہ لوٹ پوٹ کر ہی کچھ سکون حاصل کر سکے۔۔ اس کے جسم کے خلیے بے جان مادے کے ایٹموں کا روپ دھارے اسکی قوت ارادی کا ساتھ دینے سے قاصر تھے۔۔ لیکن حیرت انگیز طور پر اسکا دماغ بہت چوکس اور مستعدی کا مظاہرہ کر رہا تھا۔وقفے وقفے سے اسکے سینے میں اٹھنے والی درد کی یہ لہریں اس کے دماغ کو بیدار رکھنے میں معاون تھیں۔۔۔ اسکے حواس خمسہ اسکی آنکھوں میں سمٹ آئے تھے۔ بغیر ڈیلے گھمائے ہر منظر اسے کے سامنے واضح تھا۔۔ اسکی دائیں جانب کھڑکی پر  لٹکے بھورے رنگ کے دبیز پردے باہر ہونے والی دھماچوکڑی کا شور جذب کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ حاکم کو ڈھول کی ہلکی سی تھاپ سنائی دے رہی تھی۔ ۔ اسکی پشت پر لگے اے سی کا درجہ حرارت بیس ڈگری سینٹی گریڈ پر سیٹ تھا۔ لیکن اب رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ دن کے سورج کی تپش رات کی ہلکی سی حبس میں تبدیل ہو گئی تھی۔ اے سی کمرے میں ٹھنڈک پھینک رہا تھا اور سردی سے حاکم کا بدن مزید سن ہو رہا تھا۔ اسے شدت سے ضرورت محسوس ہو رہی تھی کہ یا تو کوئی اس کی ٹانگوں پہ پڑا کمبل اسکے منہ تک اوڑھا دے یا پھر اے سی کا درجہ حرارت زیادہ کر دے۔۔ لیکن پچھلے پانچ گھنٹوں سے کمرے میں کسی نے جھانک کربھی نہیں دیکھا تھا۔ بذات خود اس میں حرکت کرنے کی سکت نا تھی کیوں کہ دو ماہ پہلے فالج کے  شدید اٹیک نے اسکا دھڑ مار دیا تھا۔

حاکم کی عمر تقریباً اکہتر برس تھی۔۔  اس نے زندگی میں بڑی مشقت کی تھی اسلیے اسکی کمر جھک گئی تھی۔ کاندھے اندر کو مڑ گئے تھے اور بال سفیدی سے دوبارا سلیٹی رنگت کی جانب مائل تھے لیکن اس کے تمام دانت سلامت تھے۔۔ وہ گینٹھیے،، ہیپاٹائٹس شوگر جیسی امراض سے محفوظ تھا۔۔ فالج کے حملے سے پہلے تک وہ بہت مستعد آدمی تھا۔۔ مشقت اور جدوجہد اسکے خمیر میں شامل تھی اس لیے وہ ٹک کر نہیں بیٹھتا تھا۔ اپنی بیوی کی وفات کے ایک گھنٹے پہلے تک اس نے کبھی بڑھاپا محسوس نہیں کیا تھا۔ لیکن بیوی کی موت کے چند یوم بعد ہی اسے احساس ہونے لگا کہ وہ عورت اسکی زندگی کا سب سے لازمی حصہ تھی۔ وہ عورت جسے کبھی اس نے غور سے بھی نہیں دیکھا تھا وہ اسکا رؤواں رؤواں پڑھتی تھی۔ اس کے بولنے سے پہلے اسکی بات سمجھ لیتی تھی۔ اٹھنے سے پہلے اسکی نگاہ کا مقصد جان لیتی تھی۔ چائے کے ذائقے سے لے کر جرابوں کی رنگت تک وہ اسکی ہر پسند نا پپسند سے واقف تھی۔ اسکی لاتعلقی کو خندہ پیشانی سے اپنے وسیع قلب میں سمو لیتی تھی۔وہ اسکی زندگی کا اتنا اہم جز تھی کہ  اسکی موت کے تین دن بعد اسے احساس ہوا کہ اس کی مدد کے بغیر وہ ڈبل روٹی پر مکھن لگانے کے بھی قابل نہیں ہے ۔ اس کے بغیر وہ اکیلا، لا وارث اور اپنے ہی گھر میں اجنبی تھا۔ اس قلق نے اسے دو ماہ کے اندر اندر دیمک کی طرح چاٹ لیا اور اب وہ رخت سفر باندھ رہا تھا ۔ بیوی کا خیال آتے ہی اسکا دل کیا کہ وہ سائید ٹیبل سے اپنی شادی کی تصویرنکال کر دیکھے جس میں وہ معمولی سی عورت اسکے پہلو میں سر جھکائے دبکی بیٹھی تھی۔ وہ بمشکل اسکی بغل تک آتی تھی۔ اس وقت یہ خواہش اتنی شدت سے جاگی کہ حاکم سے رہا نا گیا اور اس نے اپنے جسم کو حرکت دینے کی آخری کوشش کرتے ہوئے زور لگایا۔۔ وہ سائیڈ ٹیبل تک تو نا پہنچ سکا مگر اس کی کلائی  میں لگی ڈرپ کی سوئی نکل گئی اور بازو پلنگ سے نیچے لڑھک گیا۔ اسکے ماتھے پر پسینہ چمکنے لگا اور سانس پھول گئی۔ ۔ اسکے حلق میں کانٹے چبھنے لگے۔ وہ پانی پینا چاہتا تھا۔۔اس نے کسی کو آواز دینے کی کوشش کی مگر غوں غاں کی دو تین آوازوں کے سوا منہ سے کچھ برآمد نا ہوا۔  باہر سے اب پیروں کی دھمک کی آوازیں بھی آ رہی تھی۔۔ آج اسکے  بڑے پوتے کی مہندی تھی۔۔ تین بیٹوں، ایک بیٹی ، دو نواسیوں چار پوتوں اور پانچ پوتیوں والا حاکم علی گورایا اپنے آخری سفر میں بالکل اکیلا تھا۔ بے بسی کے اس احساس میں اسکی آنکھ سے ایک آنسو نکلا اور اسکی گردن کی سلوٹ میں پیوست ہو گیا۔ ‘کیا ہوا طارق علی؟ کیوں پریشان ہو’۔۔اچانک اسے اپنی ماں کی آواز سنائی دی ۔۔ اس نے دیکھنے کی سعی میں نگاہ  گھمائی مگر منظر میں بے جان اشیا کے سوا کوئی زی شعور نا تھا۔ اسکی ماں دو مواقع پر ہی اسے پورے نام سے بلاتی تھی۔۔ ایک جب وہ اس سے بہت خوش ہوتی۔۔یا جب وہ افسردہ ہوتا  تب اسکی ماں دلجوئی کے لیے لجاہت سے اسے پورے نام سے پکارتی۔۔۔ ‘کیا ہوا ہے میرے لعل کو’۔۔ وہ اب اسکے سرہانے بیٹھی اسکے بال جما رہی تھی۔۔ تو پریشان نا ہو ۔۔۔۔ بس وہ کر جو میں کہتی ہوں۔۔۔۔ ماں کی سنے گا تو بیڑے پار لگیں گے۔ ۔۔وہ اپنے مخصوص جملے دہرا رہی تھی۔ حاکم کو یہ جملے بہت اچھے سے یاد تھے ، انہی کے گرد تو اسکی زندگی کا پہیا گھوما تھا۔۔ ماں کی فرماں برداری اسکا نصب العین تھا۔۔ اور کیوں نا ہوتا اسکی ماں اس قابل تھی کہ اسکی پوجا کی جاتی۔۔ اس کے ہر حکم پر اپنی خواہشات کو قربان کیا جاتا۔۔ اس کے ہر فرمان پر سرتسلیم خم ہوتا. ماں کی زندگی کا محور بھی تو وہ ہی تھا۔۔ وہ اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اس سے بڑی دو بہنیں تھیں جن کی وقت پہ  شادی کرکے ماں نے گھر سے رخصت کر دیا تھا۔ وہ اس وقت ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ ان کی دو ایکٹر زمین تھی جس پر اسکے ابا کھیتی باڑی کرتے ۔ ان کا اچھا بھلا گزر بسر ہوتا تھا۔ ویسے بھی اس کی ماں بہت سگھڑ عورت تھی، کپڑا اور پیسہ سینت سینت کر رکھتی تھی۔۔ دو دو چار چار سال بعد اسکے پاس سے وہ  کپڑے برآمد ہوتے جن کے رنگ اور ڈیزائن بھی کسی فرد کو یاد نا ہوتے۔  ماں کی فطرت دابو تھی۔ اسکا بھلا مانس باپ جو کماتا لا کر اسکے ہاتھ پر رکھ دیتا۔ باہر کے معاشرتی و معاشی معمالات کے ساتھ ساتھ اسکی ماں گھر کے ہر معاملے میں بھی خود مختار تھی۔ شریکے میں سب کے دو دو تین تین بیٹے تھے ۔ جبکہ وہ اکیلا۔ اس محرومی کو دور کرنے کے لیے ماں نے یہ راستہ نکالا کے بیٹے کو خوب پڑھاؤں اور بڑا آدمی بنا کر شریکے کے سینے پر مونگ دلوں۔ لہذا جیسے ہی اس نے  انٹر میں داخلہ لیا۔ انہوں نے زمین بیچی اور شہر کی طرف ہجرت کر گئے۔ شہر میں پہلی رات ماں خوب روئی تھی۔ اسے اپنی زمین اور گھر چھن جانے کا غم تھا،،  ماں کو روتے دیکھ کر حاکم کا دل بھر آیا۔ وہ اپنی ماں کی آنکھوں میں آنسو دیکھنے کی سکت نہیں رکھتا تھا، اس رات اس نے اپنی ماں سے وعدہ کیا کہ وہ بہت لگن سے کام کرے گا۔ دو کی بجائے دس ایکٹر زمین خریدے گا اور شہر میں انکا زاتی مکان ہو گا۔ اسکی ماں مطمئن ہو گئی۔

حاکم محنتی تو تھا مگر زیادہ زہین نا تھا۔ وہ مقابلے کا امتحان تو نا پاس کر سکا مگر جیسے تیسے ایم اے کر کے منشی بھرتی ہو گیا۔۔اسی دوران اسکی ماں نے اسکے لیے لڑکی ڈھونڈی اور اسکی شادی کر دی۔ باپ کی طرح اس نے بھی کبھی ماں کے فیصلوں سے اختلاف نا کیا تھا۔ نا ہی اسے کبھی اسکی ضرورت محسوس ہوتی تھی۔ لہذا شادی سمیت زندگی کے تمام ضروری لوازمات خوش اسلوبی سے انجام پا گئے۔
اسکی بیوی ایک حلیم عورت تھی۔ وہ کم بولتی تھی۔ اس کے مطالبات کم تھے۔ وہ فرمائشیں بھی کم کرتی تھی۔۔ کیا واقعی ایسا تھا؟ حاکم نے سوچا۔ مجھے جاننا ہے کہ وہ کیسی عورت تھی۔۔ وہ کم گو تھی یا میں نے کبھی اس کے الفاظ  سننے کی کوشش نا کی۔ وہ جو کبھی قہقہ لگا کر نہیں ہنسی تھی کیا وہ خوش نہیں تھی؟؟ ۔ ۔ ۔ وہ اپنی شادی کے ابتدائی ایام یاد کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ کیا واقعی رقیہ ایسی تھی؟ اس نے جلدی جلدی یادوں کی فلم کو ریورس میں گھمایا اور مختلف سین گھنگالنے لگا۔۔ جانے کیوں آج وہ جاننا چاہتا تھا کہ رقیہ کیسی زندگی گزارنے کی متمنی تھی۔ اسے وہ لمحات یاد آئے تو اسکا سینہ درد سے بھر گیا۔ شرمندگی سے اسکی پیشانی عرق آلود ہو گئی۔۔ اسے معلوم ہی نہیں تھا کہ رقیہ کیا چاہتی تھی. اس کے گھر آتے ہی اس نے رٹے رٹائے جملے بولے تھے۔۔ اس کچھ کچھ یاد آ رہا تھا۔ اس نے کہا تھا  مجھے میری ماں دنیا میں سب سے زیادہ عزیز ہے۔ اور اس کے بعد زندگی میں میرا مقصد اپنے چچیروں کو مات دینا ہے۔۔ لہذا میرا ساتھ دینا اور عام عورتوں کی طرح میری زندگی اجیرن مت کرنا۔میرے پاس اتنی فرصت نا ہو گی۔۔ حاکم کو رقیہ کی خاموش مگر حیرت زدہ آنکھیں یاد تھیں۔۔ رقیہ تم کیوں نا بولی اس وقت۔۔ وہ اندر ہی اندر تڑپا۔۔ کیوں نا مجھے ٹوکا۔۔ کاش تم نے مجھے بتایا ہوتا کہ  زندگی زندہ رہنے کا  نام نہیں بلکہ یہ جیے جانے والی شے ہے.. اور میرے پاس جینے کی فرصت نا تھی..

‘‘حاکم؟ ’’ ۔۔ یہ دوسری نسوانی آواز اسکی بیوی کی تھی۔ ‘‘میرا دل گلاب جامن کھانے کو کر رہا ہے’’۔ ۔ اسکی بیوی امید سے تھی۔ اور اسے مارکیٹ سے آئے ابھی دس منٹ ہوئے تھے جب اس نے یہ فرمائش کردی۔حاکم نے اب پٹواری کی نوکری کے ساتھ  بڑے بازار میں دوکان خرید لی تھی۔وہ آہستہ آہستہ ترقی کی منازل طے کر رہا تھا۔ لیکن اتنی مشقت اسے بری طرح تھکا بھی دیتی تھی۔۔۔ آج بھی وہ تھکن سے چور تھا۔ اس نے بیوی کی آواز پر توجہ نہیں دی۔۔ وہ کوئی آدھے گھنٹے بعد دوبارہ کمرے میں آئی۔۔‘‘ حاکم میرا گلاب جامن کھانے کو بہت دل کر رہا ہے قسم سے’’۔۔ وہ اس کے چہرے پر جھکی ہوئی تھی۔ حاکم کا اٹھنے کا بالکل اراداہ نہیں تھا مگر نجانے کیوں وہ اس کے ابھرے ہوئے شکم کی محبت میں اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔۔ اگلی صبح ناشتے پر ماں نے اسے سمجھایا۔ ‘‘یہ عورتوں کے نخرے ہوتے ہیں کہ یہ دل کر رہا ہے وہ دل کر رہا ہے۔ہم نے چار چار بچے پیدا کیے۔لیکن کبھی ایسے چسکے لگانے کا دل نہیں کیا تھا۔۔ نا ہی کبھی ایسا اوچھا سوچا۔ عورت ان پٹھنگوں سے مرد کی دولت خرچ کرواتی ہے۔صرف اپنی اہمیت بنانے کے لیے۔۔ یاد رکھ۔۔ اچھی بیوی وہ ہے جو مرد کی کمائی کو سنبھالتی ہے۔۔ لیکن اب وہ زمانے کہاں۔۔ اب تو بیویاں بیویاں نہیں ملکائیں بننے کی شوقین ہیں.. اونہہ ’’۔۔ اس نے اختلاف نا کیا تھا کیونکہ ماں کا موقف اصولی تھا۔ ایسے کتنے ہی اصولی موقف تھے جس سے اس نے کبھی اختلاف نہیں کیا تھا۔۔ حالانکہ اسے اختلاف کرنا چاہیے تھا۔۔مثلا اسے اس اصول کو توڑنا چاہیے تھا کہ دوران زچگی عورت کے سرہانے منڈلانا بے شرمی ہے۔۔ اسے ڈھیل دینا۔۔ اس کے ناز اٹھانا رن مریدی ہے۔۔یا اسکی کسی بات سے اتفاق کرنا اور اس کے کسی مشورے پر عمل کرنا نامردی ہے۔۔ ابا نے بھی تو ساری زندگی یہ اصول توڑے تھے۔ وہ کیوں نا توڑ سکا۔ وہ کیوں نا باپ کے نقش قدم پر چلا۔ اسے اپنا چغد باپ اچانک بہت سمجھدار دکھائی دینے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اب کیا ہو سکتا تھا۔ اسکی کمائی پر جس عورت کا سب سے زیادہ حق تھا وہ صابر، شاکر اور سگھڑ جیسے القاب اوڑھے منوں مٹی تلے سو رہی تھی اور اسکی جمع پونجی باہر لان میں وہ لوگ اڑا رہے تھے جو شائید اس کے پورے نام سے بھی واقف نا تھے۔  پٹاخوں کے شور اور بندوق کی فائرنگ کی آواز نے اسکی سوچ کا سلسلہ منطقع کر دیا۔۔ حاکم کے سینے کے  درد میں سردی کی وجہ سے اضافہ ہو رہا تھا۔ اسکی بے جان ٹانگوں میں سویاں سی چبھ رہی تھیں ۔ پیاس سے حلق میں کانٹے اگ آئے تھے۔ اچانک دروازہ کھلا اور اسکا منجھلا بیٹا اندر داخل ہوا۔ اس نے غور سے باپ کا جائزہ لیا ۔ اسے پکارا ۔۔ اسکی آنکھوں میں زندگی کی رمق کا اندازہ لگایا۔۔ سینے پر کان رکھ کر دھڑکن سننے کی کوشش کی۔ ۔ اور بوکھلاتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔۔  کچھ توقف کے بعد تینوں بیٹے باپ کے بستر کے گرد کھڑے کھسر پھسر کر رہے تھے۔ ان کی باتوں سے اسے اندازہ ہوا کہ وہ اسے مردہ سمجھ رہے ہیں۔۔ اسکا کا دل کیا کہ وہ چیخ چیخ کر انہیں بتائے کہ میں زندہ ہوں۔۔ اے سی کا ٹمپریچر زیادہ کرو تا کہ میری پسلیوں کے سن پٹھے بحال ہو سکیں اور میں ٹھیک سے سانس لے سکوں۔۔ میری رگوں میں جما ہوا خون رواں ہو اور میری حرکت قلب بحال ہو۔ اے سی کا ٹمپریچر بڑھاؤ تاکہ  میری سکڑی جامد پتلیاں حرکت کر سکیں۔ اور میں تمھیں باور کروا سکوں کہ میں ابھی مرا نہیں ہوں۔۔ابھی زندہ ہوں۔۔ لیکن وہ اسکی خاموشی کو سننے سے قاصر تھے۔۔دس منٹ کی میٹنگ کے بعد وہ باہر چلے گئے۔۔ شائید وہ ڈاکٹر کو بلائیں گے۔ اس نے امید سے سوچا۔۔ شائید ان میں سے کسی کو خیال آئے گا کہ کمرے کی آب و ہوا میں گڑ بڑ ہے۔ اسکا بڑا بیٹا تو بہت سمجھدار تھا۔ اور اسکا فرمانبردار بھی۔ لیکن آج وہ بھی عجلت میں تھا۔ وہ کیوں عجلت میں تھا۔ اسکے بیٹے کی شادی ہے اس لیے؟ میں بھی تو اسکا باپ ہوں۔ وہ باپ جس نے بیٹوں کو اعلی تعلیم اور روزگار کے لیے مشقت کی۔ اٹھارا اٹھارا گھنٹے گھر سے باہر گزارے۔جب تک وہ پڑھتے تھے اس نے کبھی کسی اچھے ریستورنت میں کھانا نہیں کھایا۔ کبھی دوستوں کے ساتھ  راتیں باہر نہیں گزاریں۔۔ اپنی گاڑی نہیں لی تھی۔۔رقیہ کو نئے جوڑے نہیں دلواتا تھا۔۔ نا کبھی اس کے ساتھ کسی پر فضا مقام پر گیا۔۔ بچوں کو مہنگے جوتے دلانے کے لیے وہ اپنی سستی پینٹیں خریدتا تھا۔ مگر یہ سب اچانک کیوں بدل گئے۔۔میری ترجیحات ہمیشہ یہ رہے۔ انکی ترجیحات کیوں بدل گئیں۔ وہ اپنے آپ سے سوال کر رہا تھا کہ دروازہ پھر سے کھلا۔ اس بار بیٹوں کے ساتھ اسکی بیٹی بھی تھی۔ وہ اسکے سرہانے بیٹھ کر رونے لگی۔ ‘‘بس کرو عالیہ۔۔ چند گھنٹے صبر کر لو۔۔ گھر میں فنکشن چل رہا ہے۔۔ کیسے صبر کر لوں’’۔۔ وہ دبی دبی آواز میں چلائی۔۔ ابا فوت ہو گئے ہیں نعمان بھائی۔ آپ کو یہ سب رکوانا ہو گا۔۔ عالیہ سب مہمان گھر پر جمع ہیں۔۔ بارات نکلنے میں کچھ دیر باقی ہے۔۔ لڑکی والوں کی طرف پورے انتظامات ہیں۔۔ تم سوچ سکتی ہو کہ کتنا نقصان ہو گا۔۔ اگر ہم چند گھنٹے ابا جی کی موت کی خبر چھپا لیں تو کونسی قیامت آجائے گی۔ ویسے بھی جو ہونا تھا وہ ہو چکا ہے۔۔ یہی مشیت ایزدی تھی ۔۔لیکن ہمیں عقل سے کام لینا چاہیے۔۔ تھوڑی سی پس و پیش کے بعد وہ رضا مند ہو گئی اور آنسو صاف کرتے ہوئے بولی۔۔  آپ کی بات درست ہے بھائی جان۔ ۔۔ جو ہونا تھا وہ تو ہو چکا۔۔ لیکن اتنے گھنٹے لاش کو رکھنا۔۔۔۔۔ اس نے بات ادھوری چھوڑ دی۔۔ میں نے اسکا طریقہ سوچا ہے باجی،، اے سی کا درجہ حرارت کم کر دیتے ہیں ۔۔ آٹھ دس گھنٹے کچھ نہیں ہو گا۔۔ ہاں یہ ٹھیک ہے۔۔ سب ہی متفق نظر آنے لگے۔۔ بڑے بیٹے نے ریمورٹ پکڑ کر درجہ حرارت سیٹ کیا اور سب باہر نکل گئے۔۔ حاکم  کے متحرک دماغ پراب  غنودی چھانے لگی تھی۔ اسکی رگوں میں تناؤ پیدا ہو گیا اور اعصاب چٹخنے لگے۔۔۔ رنگت سفید ہوگئی اور ہونٹوں پر پریٹری جمنے لگی۔۔۔آہستہ آہستہ حاکم کے سینے میں درد کی جگہ ایک نیم گرم غبار نے لے لی۔۔ اور پورے جسم میں حرارت کی ایک لہر دوڑنے لگی ۔۔ دماغ کی متحرک سکرین بجھ گئی اور وہ ابدی نیند سو گیا۔۔

Friday 18 December 2015

سیکس اور عورت

8 comments
پچھلے دنوں میں نے ایک جنسی لطیفہ پوسٹ کیا جس پہ بحث چھڑ گئی۔ زیادہ تر کمنٹس تو نظر انداز کرنے والے تھے مگر میرے دو معزز دوست ایسی بات کر رہے تھے جن کا جواب دینا لازمی تھا۔ لہذا ننگی باتیں ہوئیں۔ لیکن کچھ ایسے افراد جنکی زندگی کا واحد مقصد گلی کوچوں کے تھڑوں پر بیٹھ کا آتی جاتیوں کے بارے میں رائے زنی کرنا ہوتا ہے۔ وہ سوشل میڈیا جیسے باکمال فورم پر آ کر بھی عادتا اوچھی حرکتیں کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ انہوں نے میرے کمنٹس کے سکرین شاٹس لیے اور اب گلی گلی ملکوں ملکوں گروپوں گروپوں لیے گھوم رہے ہیں کہ دیکھو یہ عورت کیسی ننگی باتیں کرتی ہے۔۔

 مجھے ایسے بونوں کی رتی برابر پرواہ نہیں لیکن چونکہ کہ اب موضوع چھڑا ہے اور بچہ لوگ بھی گرم ہوئے گھوم رہے ہیں تو مجھے مناسب لگ رہا ہے کہ یہ اچھا موقع ہے کہ میں اپنے موقف کو تفصیل سے ’کھول کر‘ بیان کر دوں۔

سیکس ایک آرٹ ہے۔ فن ہے۔ اس کے لیے جاندار قسم کی ذہنی قوت اور جنسی ہم آہنگی درکار ہے۔۔ جو لوگ اس سے محروم ہوتے ہیں دوران سیکس ان کی حرکات و سکنات میں اضطراب پایا جاتا ہے ۔ ایسے لوگوں میں حیوانی خواہش انگڑائی تو لے رہی ہوتی ہے مگر بوجہ کم علمی و جہالت اور لطافت و جمالیاتی حس سے محرومی کی وجہ سے وہ ٹھیک طریقے سے انکا لطف اٹھانے سے قاصر رہتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر ان کی انسانی جنسی خواہش درندگی کا روپ دھار لیتی ہے اور وہ ۔۔زور زبردستی کرنے۔۔ خون نکالنے۔ من مانی کرنے،، جسمانی طاقت دیکھانے کو سیکس سمجھنے لگتے ہیں بلکہ اس سب کو وہ اپنا پیدائشی حق سمجھنے لگتے ہیں۔ ایسے مواقع پر سمجھدار عورت اپنی ممکنہ مجبوری کی وجہ سے مرد کے سامنے سرنگوں تو ہو جاتی ہے لیکن ایسے مرد کی حیثیت اسکی نظر میں اس کتے سے زیادہ نہیں رہتی جو اسے بھنبھوڑ رہا ہوتا ہے اور جس سے خلاصی حاصل کرنے کا واحد راستہ ہڈی ڈال کر سائیڈ پہ ہو جانا ہی رہ جاتا ہے۔ دوستو یاد رکھیں اگر آپ کی قربت عورت کو یہ احساس نا دلا سکے کہ وہ کسی جزیرے کی شہزادی ہے تو آپ ایک ناکام مرد ہیں۔ اگر آپ کا لمس اس کی ذات پر نشہ اور سرشاری کی کیفیت نا طاری کر سکے تو مان لین کہ آپ کو سیکس کرنا نہیں آتا۔۔ اصیل مرد کی قربت میں عورت کو اپنا وجود ہیرے جواہرات سے مزین مھسوس ہوتا ہے جبکہ دوسری صورت میں گندگی کا ڈھیر۔۔

  آپ لاکھ مجھے گالی دیں مگر یہ حقیقت اپنی جگہ قائم رہے گی کہ سیکس کے متعلق عورت بھی ایک رائے رکھتی ہے۔۔ سیکس کے متعلق اس کے بھی مخصوص احساسات ہیں۔۔ اسکی بھی چوائس ہے۔۔ دوران سیکس عورت کو کچھ اچھا لگ رہا ہوتا ہے۔ کچھ اچھا نہیں لگ رہا ہوتا۔۔ وہ کچھ چاہ رہی ہوتی ہے اور کچھ نہیں چاہ رہی ہوتی۔۔ وہ یا تو مرد کی قربت کا مزہ لے رہی ہوتی ہے یا پھر اسے ہڈی ڈال رہی ہوتی ہے (یہ دریافت کرنا مرد کی ذمہ داری ہے کیونکہ بعض دفعہ وہ اتنی بے نیاز ہوتی ہے کہ اسکا اظہار کرنا بھی گوارا نہیں کرتی) جو زوایہ بھی پکڑ لیں یہ سچ ہے کہ  سیکس میں عورت برابر کی شریک کار ہے۔ بلکہ میں تو یہ کہوں گی کہ عورت مرد سے زیادہ لطف اندوز ہوتی ہے۔ سیکس عورت کے لیے ہے۔ مرد اسکا سیکس ورکر ہے( اسکی سادہ سی دلیل یہ ہے کہ دوران سیکس مشقت والا سارا کام مرد کرتا ہے) اگر اسکا سیکس ورکر اپنے فرائض ٹھیک سے سرانجام دینے سے قاصر رہتا ہے تو عورت اس سے بور ہونے لگتی ہے۔ اکتا جاتی ہے۔ لہذا جن مردوں کو یہ شکایت ہے کہ ان کی بیویاں ان میں دلچسپی کا اظہار نہیں کرتی انہیں چاہیے کہ ممکنہ وجوہات ڈھونڈ کر انہیں رفو کریں۔ اپنی خامیاں دور کریں۔ خود کو بھی ایجوکیٹ کریں اوور اپنی بیویوں کو بھی۔

  کچھ جوڑوں میں تو شروع سے ہی سیکسوئیل کمپیٹیبلٹی نہیں ہوتی۔ انکا الگ ہو جانا ہی بہتر ہے کیونکہ  معاش کے ساتھ ساتھ سیکوشئیل کمپیٹیبیلٹی کے بغیر کامیاب تعلق کا تصور ناممکن ہے وہ بھی اس صورت میں کہ جوڑا جسنی طور پر صحت مند، جاندار اور باشعور ہو۔(ایک ہوش مند مرد یاعورت اپنے پارٹنر کی  شراکت کے بغیرسیکس انجوائے نہیں کر سکتا۔۔ اگر وہ کر رہا ہے تو ذہنی مریض ہے۔)

میں اپنی کولیگز میں سب سے جونئیر ہوں۔ میری سب کولیگز تیس سے لے کر پچپن کے پیٹے میں ہیں۔۔ دو نے حج کیے ہوئے ہیں۔۔ ایک نے عمرہ کر رکھا ہے۔۔ جبکہ ایک کا تعلق خالص سید فیملی سے ہے۔۔ روزانہ دوران لنچ جب محفل جمتی ہے تو انکی باتوں ، لطائف،،حقائق و واقعات کا زیادہ تر موضوع سیکس ہوتا ہے۔۔ قہقے ہوتے ہیں۔۔ ٹھٹھہ لگایا جاتا ہے۔ وہ سب لطف اندوز ہوتی ہیں۔یہ صرف ایک مثال ہے۔ مین جانتی ہوں کہ تقریبا ہربے تکلف اور نجی محفل میں ایسے ہی لطف اندوز ہوا جاتا ہے۔ بتانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ عورت بھی سیکس سے متعلق سوچتی ہے۔ بات کرتی ہے۔۔ رائے زنی کرتی ہے اور نقطہ نظر قائم کرتی ہے۔
۔
میرے بچو۔ ایسے موضوع روز روز نہیں چھڑتے۔۔ لہذا میں بغیر کوئی لگی لپٹی کے نصیحت کرتی جاتی ہوں کہ کوئی بھی عقل مند عورت ایسے مرد سے  وفا نہیں کرتی جو..

اسے عزت نا دے( ownership )
معاشی طور پر کمزور ہو
اسے جنسی آسودگی نا فراہم کر سکے

 ایسا مرد عورت پر بوجھ ہے۔ اسکے گلے کا پھندا ہے۔ (اب ہمارا سماجی نظام اتنا ناقص ہے کہ ہم نے چالاکی سے عورت کو یہ باور کروا رکھا ہے کہ ہر ایرے غیرے نتھو ولد خیرے کے ساتھ اسکا رہنا عین عبادت اور فرض ہے لہذا وہ وفا کو خود پر طاری کر کے بلکہ مسلط کر کے عجیب ترحمانہ زندگی گزارتی ہے)۔ شعوری یا غیر شعوری طور پر ایسے مردوں کو ہمیشہ عدم تحفظ کا احساس رہتا ہے۔۔ یہ عدم تحفظ انکی باتوں اور افعال سے عیاں ہوتا رہتا ہے۔ مثلا ایسے مرد حد درجہ شکی مزاج ہوتے ہیں۔ وہ اپنی عورتوں پر نظر رکھتے ہیں۔۔ بلکہ ان کی رکھوالی کرتے ہیں۔ایسے کسی مرد کی بیوی اگر ہنس کر اپنے کزن سے دعا سلام بھی کر لے تو اسے موت پڑ جاتی ہے۔ یہ لوگ  مجبورا اپنی بیووں کو موبائل تو دلا دیتے ہیں مگر outgoing بند کر دیتے ہیں۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔ میں تو کہتی ہوں کہ اگر ہمارے یہاں اینج میرج کا رواج نا ہوتا تو ایسے مرد عورتوں سے محروم نظر آتے۔۔ لیکن سات سلام ہمارے سماجی و معاشی نظام کی کارستانیوں کو جس نے ایسے چغدوں کو بھی بچی باز بنا دیا۔۔ اورآج وہ اس معاملے میں ہر فن مولا قسم کے ماہر بنے گھومتے ہیں۔۔ خود کو ہر گندی حرکت کا حقدار سمجھتے ہیں لیکن اگر کوئی خاتون اس بارے میں بات بھی کرے تو کہتے ہیں۔۔ دیکھو دیکھو یہ عورت ننگی باتیں کرتی ہے۔